الوقت- ایک دور تھاحب ایران اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا ایک ساتھ زکر کیا جاتا دونوں کو امریکہ کی محالفت کی وجہ سے عالمی اداروں میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔امریکہ اور بعض دوسرے ممالک نے شمالی کوریا سے کچھ وعدے وعید کئے لیکن اس پر حسب توقع عمل درآمد نہ کیا گیا ۔اس وعدہ خلافی پر شمالی کوریا نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا اور یوں اس ملک نے ایک بار پھر اپنے ایٹمی پروگرام کو آگئے بڑھانا شروع کردیا۔حال ہی میں شمالی کوریا کے ایٹمی ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا ہےکہ یانگ بیون ایٹمی کامپلیکس نے دوبارہ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ شمالی کوریا کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے ایٹمی ادارے کے سربراہ کا نام نہیں بتایا ہے۔ یانگ بیون ایٹمی کامپلیکس شمالی کوریا کا اہم ترین اور سب سے بڑا ایٹمی بجلی گھر ہے۔ یہ بجلی گھر شہرپیونگ یانگ یعنی دارالحکومت سے نوے کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یانگ بیون ایٹمی ری ایکٹر پانچ میگاواٹ کا ری ایکٹر ہے جس کے بارے میں ایٹمی ماہرین کا کہنا ہےکہ اس سے سالانہ پانچ کیلوگرام پلوٹونیم بنائي جاسکتی ہے جو ایک ایٹم بم بنانے کےلئے ضروری ہوتی ہے۔ ادھر شمالی کوریا کے سائنس داں اور ماہرین اپنی ایٹمی تنصیبات کے ارتقاء اور ایٹمی مشینوں کو بہتر بنانے کی انتھک کوششیں کررہے ہیں۔اس کےعلاوہ پیونگ يانگ کے حکام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نئي نسل کے میزائلوں کے تجربے کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نےشمالی کوریا پر دباؤ ڈالنے کے لئے قرارداد نمبر اٹھارہ سو چہتر منظور کی تھی ۔ البتہ دوہزار چھے میں بھی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد نمبر سترہ سو اٹھارہ منظور کی تھی۔ فروری دوہزار سات میں شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیاں ایک معاہدے پر دستخط ہوئےتھے جو بعد میں فروری معاہدے کے نام سے مشہور ہوا۔ اس معاہدے کی رو سے شمالی کوریا نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی امداد کے عوض یانگ بیون بند کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ یانگ بیون ایٹمی کامپلیکس میں سب سے اونچا کولنگ ٹاور تباہ کردیا گيا تھا اور اس زمانے میں شمالی کوریا کی ایٹمی سرگرمیوں کا معائنہ کرنے کے لئے ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے معائنہ کاروں کو شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت دی گئي تھی۔ شمالی کوریا نے اپنے اس اقدام کے بعد امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریاکے وعدوں پر عمل درآمد کا انتظار کرنا شروع کیا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے شمالی کوریا کو ایک ملین ٹن ایندھن دینے کا وعدہ کیا تھا جسمیں سے صرف پچاس فیصد ایندھن دیا گيا جبکہ جاپان اور جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کے ہیوی واٹر پلانٹ کو ہلکے پانی کے پلانٹ میں تبدیل کرنے کےلئے چار ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے اپنے اس وعدے پر عمل نہیں کیا۔ شمالی کوریا نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی وعدہ خلافی کے پیش نظر عملی طورسے اپنی ایٹمی سرگرمیاں شروع کردیں اور یانگ بیون ایٹمی کامپلیکس کی تعمیر نو کا کام بھی شروع کردیا بلکہ دوہزار تیرہ میں ایٹمی تجربہ بھی کیا۔ شمالی کوریا نے اپنے ان اقدامات سے علاقے اور عالمی رائے عامہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہےکہ تیرہ فروری دوہزار سات کا معاہدہ اقدام کے بدلے اقدام کے لئے تھا یعنی ایٹمی سرگرمیاں بند کرنے پر مبنی شمالی کوریا کے اقدام کے بدلے امریکہ بھی اقدام کرے گا جس سے حالات سدھارنے میں مدد ملے گي۔ البتہ شمالی کوریا نے جب یہ دیکھا کہ امریکہ جاپان اور جنوبی کوریا، اسکے اقدامات کے جواب میں کوئي اقدام نہیں کررہے ہیں تو وہ چھے فریقی مذاکرات سے نکل گيا۔ اسکے بعد سئول اور پیونگ یانگ کے درمیان دھمکیوں اور لفظی جنگ کا سلسلہ شروع ہوگيا۔ دوہزار تین میں چین کی تجویز پر چھے فریقی مذاکرات شروع ہوئے تھے۔یاد رہے چین شمالی کوریا کا روایتی حلیف ہے۔ ان مذاکرات سے چین کا ھدف یہ تھا کہ چھے فریقی مذاکرات میں بحث کرنے کی شمالی کوریا کی طاقت میں اضافہ کرے۔ دراصل دوہزار سات کا معاہدہ بھی باگيننگ طاقت میں اضافہ کے لئے نیز نئے نظریات پیش کرنے کےلئے تھا۔ اب چین چھے فریقی مذاکرات کو قاعدے اور ضابطے کے تحت لانے کی کوشش کررہا ہے اوراسی وجہ سے چین نے شمالی کوریا سے کہا ہےکہ اپنے ایٹمی پروگرام کے تعلق سے صبر وضبط کا مظاہرہ کرے البتہ اس کے یہ معنی ہیں کہ دوسرے فریقوں کو بھی صبر وضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ہر طرح کے اشتعال انگيز اقدامات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایسا لگتا ہےکہ چین چاہتا ہے کہ یہ ثابت کرے کہ سفارتکاری سے بہتر طریقے سے جزیرہ نمائے کوریا کا بحران حل کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس بحران کے حل میں چین کے مرکزی کردار کی کامیابی کا انحصار حالات و واقعات پر ہوگا۔ تاہم یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس مسئلہ کو الجھانے میں امریکہ کا کردار انتہائی بنیادی ہے یہی صورت حال ایران کے ساتھ بھی پیش آسکتی ہے پانچ جمع ایک ممالک کے ساتھ ایران کا ایٹمی معاہدہ نتیجہ بخش رہا لیکن اب امریکی حکام خاص کر انکے بعض ادارے منفی انداز سے آگئے بڑھ رہے ہیں اگر ایران کے ساتھ بھی کئے گئے وعدے پورے نہ کئے گئے تو شمالی کوریا کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے ۔