الوقت-بدنام زمانہ اوسلو معاہدہ جس کا سرکاری نام فلسطین کی محدود خود مختار انتظامیہ کی ترجیحات قرار دیا جارہا ہے ۔ یہ معاہدہ اسرائيل اور پی ایل او کے درمیاں پہلا معاہدہ تھا جس پر انیس سو ترانوے میں دستخط کئے گئے تھے۔ اس معاہدے پر جو مذاکرات منتج ہوئےتھے وہ خفیہ طور پر ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں انجام دئے گئے تھے۔اس معاہدے پر پی ایل او کے سابق سربراہ یاسر عرفات اور صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم اسحاق رابین نے امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگي میں دستخط کئے تھے۔ اوسلو معاہدہ کی بدولت ہی خود مختار فلسطینی انتظامیہ ایک عارضی ادارے کی حیثیت سے وجود میں آئي۔ یہ طے پایا تھا کہ اوسلو معاہدہ صرف پانچ سال کے لئے معتبر رہے گا اور اس کے بعد ایک دائمی معاہدہ اسکی جگہ لے لے گا۔ دائمی معاہدے میں بیت المقدس کی صورتحال، فلسطینی پناہ گزینوں کامسئلہ، یہودی کالونیاں، اور سرحدوں کا تعین نیز سیکورٹی مسائل زیر غور آنے والے تھے۔
اوسلو معاہدے میں فلسطینی اتھارٹی کے اختیارات نہایت محدود ہیں ۔ نیز صہیونی استعمار کی نگرانی میں ہی ان پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی ریاست کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی فیصلے کو یا قانون کو ویٹو کے ذریعے بے اثر کرسکتی ہے ۔
اوسلو معاہدے کی رو سے فلسطینی قیادت مستقل فوج نہیں رکھ سکتی مزید برآں صہیونی ریاست کی باضابطہ اجازت کے بغیر اسلحے کا بھی لین دین نہیں کر سکتی۔ اوسلو معاہدے میں سرحدوں کی حفاظت کاحق اسرائیل کو دیا گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو سرحدوں کا جائزہ لینا ہو یا سرحدوں سے باہر نکلنا ہو یا کسی کو فلسطینی سرحدوں میں داخل ہو نا ہو تو فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے اس کی باضابطہ درخواست کرے گی ۔
اوسلو معاہدہ فلسطین کے بنیادی اور حساس ترین مطالبات پر بالکل خاموش ہےمعاہدے میں فلسطینیوں کے مستقبل کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔نہ ان کے الگ خود مختاروطن کا تذکرہ ہے۔متنازع مغربی کنارے پر کس کا حق ہے اس کا معاہدے میں کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی غزہ کے مقبوضہ جات کے بارے میں صراحت کی گئی ہے کہ یہ متنازع علاقہ ہے۔
اوسلومعاہدے میں چونکہ اسرائیل کے عرب نمائندوں سے (پہلی مرتبہ) بلا واسطہ مذاکرات ہوئے تھے اس لیے اس معاہدے کے بعد ہر عربی حکومت نے اس میں اپنی سلامتی دیکھی کہ وہ دوسری حکومت سے پہلے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کرلے۔ حال ہی میں پی ایل او کے اعلی عھدیدار نبیل شعث نے کہا ہے کہ فلسطین کی محدود خود مختار انتظامیہ اوسلو معاہدے پر عمل درامد روکنے کے لئے پختہ عزم رکھتی ہے ۔
نبیل شعث کا بیان ایسے حالات میں سامنے آرہا ہے کہ کچھ دنوں قبل پی ایل او کی مجلس عاملہ کے سیکریٹری جنرل اور سینئر مذاکرات کار صائب عریقات نے کہا تھا کہ یورپ کی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ ساز باز مذاکرات شروع کرنا جال میں پھنسنا اور ایک منفی اقدام ہے۔
صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز معاہدوں کو کالعدم قراردئے جانے، ان کے بے فائدہ ہونے نیز ان کے منفی نتائج کے بارے میں فلسطین کی محدود خود مختار انتظامیہ کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات سے فلسطینیوں کے لئے ساز باز مذاکراتی عمل کی سازشی ماہیت ظاہر ہوتی جارہی ہے۔ بلاشبہ ساز باز مذاکرات کے باوجود صیہونی حکومت کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ صیہونی حکومت کی جانب سے توسیع پسندی اور تسلط پسندی پر اصرار ہی ساز باز مذاکرات میں تعطل آنے اور فلسطینیوں کو اس سازش کے شدید نقصانات پہنچنے کا بنیادی سبب ہے۔
ساز باز مذاکرات کو دوربارہ شروع کرانے کی کوششیں ایسے حالات میں شروع ہورہی ہیں کہ وہ اسباب جو ان مذاکرات کو معطل کرنے کے ذمہ دار ہیں صیہونی حکومت کی جانب سے بدستور جاری ہیں۔ یاد رہے صیہونی حکومت کی جانب سے یہودی کالونیوں کی تعمیر اور اس کی غیر ذمہ دارانہ کاروائياں اورنیز فلسطین کی آزاد ریاست کی تشکیل نیز فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی مخالفت جیسے مسائل بدستور موجود ہیں۔ محدود خود مختار انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس کے سازشی اقدامات اور مجموعی طورپر مشرق وسطی میں ساز باز عمل کے نتیجے میں ماضی کی طرح فلسطینی علاقوں پر صیہونی حکومت کے جرائم اور حملوں میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔
مشرق وسطی میں مذاکرات کی سازش صرف اور صرف امریکی اور صیہونی مفادات کے لئے رچی گئی ہے اور ان مذاکرات میں مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی توانائي نہیں ہے لھذا یہ سازش پہلے ہی سے شکست خوردہ سازش قرار دی جارہی ہے اور عالمی رائے عامہ اسے مسترد کرچکی ہے۔ حالیہ برسوں میں فلسطینیوں کی جانب سے مستقل فلسطینی ریاست کی تشکیل کے لئے عالمی اداروں میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوششوں اورصیہونی حکومت کی تسلط اور توسیع پسندی کے مقابل دلیرانہ پائدارای سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین کے اھداف و مقاصد تک پہنچنے کی واحد راہ انتفاضہ اور فلسطینیوں کی استقامت ہے۔ اپنے خطے سے محبت اور اس کا دفاع کرنا؛ اپنے مقدسات کا احترام اور دفاع کرنادین اسلام کے واجبات میں سے ایک اہم واجب ہے۔ اسلام کے علاوہ انسانیت بھی ان اصولوں کو تسلیم کرتی ہے۔ اپنے ہم وطن لوگوں سے ناتے داری ہونا ان سے محبت کرنا اور ان کے لیے اچھے جذبات رکھنا ایک فطری جذبہ ہے سوائے اس کے کہ اس سے کوئی ایسی چیز حلال نہ ہوجائے جو اللہ نے حرام ٹھہرائی ہے۔ اس دائرے میں رہتے ہوئے وطن اور اہل وطن سے محبت ایک فطری اور جائز جذبہ ہے۔ بنا بریں اس فطری جذبے کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کے بنیادی عناصر خواہ وطن کی محبت نے انہیں ابھارا ہو یا عربی جذبے نے مہمیز دی ہو یا اسلامی جذبہ کار فرما ہو سب ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہونے چاہئیں نہ کہ ایک دوسرے کے بر خلاف ۔