الوقت- دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا واویلا کرنے والا امریکہ اندر سے اتنا کھوکھلا ہوچکا ہے کہ اسکی بچی کھچی اقدار بھی آخری سانس لے رہی ہیں۔اسلام کے خلاف منفی پروپگینڈے اور اسلام و فوبیا امریکی معاشرے میں اس بری طرح سرایت کرچکا ہے کہ اب اسکو ختم کرنے کے لئے ایک پوری نسل درکار ہوگی ۔ حال ہی میں امریکہ میں ایسا واقعہ پیش آیا جسکو سن کر امریکہ کا ہر باشعور شہری ندامت کے آنسو رو رہا ہے ۔امریکہ میں دستی بم بنانے کے الزام میں ایک سیاہ فام مسلمان لڑکے کی گرفتاری نے امریکہ میں جاری اسلام و فوبیا کی تحریک کے نتائج کو مذید آشکار کردیا ہے ۔اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر اروینگ میں ایک چودہ سالہ طالبعلم نے اپنے ٹیچر کو اپنے ہاتھوں سے ایک گھڑی بنا کر دکھائی جسے ٹیچر نےایک دستی بم قرار دیکر اس لڑکے کے خلاف پولیس کو رپورٹ کردی جسکے نتیجے میں سوڈانی نژاد اس چودہ سالہ لڑکے کو پولیس نے لاک اپ میں بند کردیا۔یہ خبر جب سوشل میڈیا کے زریعے عام لوگوں تک پہنچی اور انہیں پولیس اور اسکول ٹیچر کے متعصبانہ رویہ کا پتہ چلا تو انہوں نے احتجاج کیا جسکے نتیجے میں پولیس نے اس لڑکے کو فورا رہا کردیا۔ایک سیاہ فام تخلیقی زہن رکھنے والے اسکولی بچے کی طرف سے اس ایجاد پر ہونے والے مزکورہ واقعہ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں رنگین فام مسلمانوں کے خلاف تعصب کس قدر راسخ ہوچکا ہے ۔گیارہ ستمبر کے مشکوک واقعہ کو چودہ سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو اسلام و فوبیا اور اسلام مخالف تلخ رویوں کا سامنا ہے ۔ان چودہ سالوں میں متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں مسلمانوں کو امریکیوں کے ہاتھوں طعن و تشنیع اور باقاعدہ جسمانی ازیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔بعض اوقات تو صرف عربی بولنے یا عربی تحریر کی موجودگی کی وجہ سے مسلمانوں کو جہاز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا۔گیارہ ستمبر کے بعد ایک ہندوستانی نژاد سکھ کو امریکی انتہا پسندوں نے صرف اس لئے قتل کردیا کیونکہ اس کے سرپر عمامہ نما پگڑی تھی۔۔اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں افغانستان سے واپس آنے والے ایک امریکی فوجی نے ایک مسلماں ٹیکسی ڈرائیور پر چاقو سے حملہ کیا۔صورت حال اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ مسلمانوں اور عربوں کو لائبریریوں میں جانے اور وہاں سے کتابیں لینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے والوں کے ناموں کو مشکوک اور دہشتگردوں کی فہرست مین شامل کیا جاتا ہے ایسے ماحول میں ایک اسکولی بچے کو سیاہ فام اور مذہبی ہونے کی بنا پر جیل میں بند کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔بہرحال سوڈانی نژاد محمد احمد کے مسئلے کو جب سوشل میڈیا میں اٹھایا گیا تو امریکی صدر نے نہ صرف اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا بلکہ اس لڑکے کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت بھی دی ہے تاہم اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ اس اقدام سے امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف جاری تعصب اور اسلام و فوبیا میں کسی قسم کی کمی واقع ہو ۔مسلسل کئی سالوں سے سرکاری اور غیر سرکاری نیز خفیہ اور اعلانیہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگرد ،متشدد اور انتہا پسند قرار دیا جارہا ہے ۔چودہ سال پہلے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے گیارہ ستمبر کے واقعہ کو صلیبی جنگ سے تعبیر کیا تھا ۔ایسی جنگ جو قرون وسطی میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان لڑی گئی تھی۔گیارہ ستمبر کے بعد مغربی ممالک میں حب بھی کوئی ایسا دہماکہ حس میں کوئی عرب یا مسلمان ملوث پایا گیا تو مغربی میڈیا نے اسے فورا دہشتگردانہ کاروائی قرار دیا لیکن دوسری طرف اگر اسی طرح کا واقعہ کسی غیر مسلم کے ہاتھوں انجام پایا تو اسکے لئے دہشتگردی کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں مسلمان ہونے کے علاوہ سیاہ فام ہونا بھی کسی جرم سے کم نہیں۔امریکی پولیس نے کئی بار سیاہ فاموں پر بغیر کسی محکمانہ کاروائی کےبندوقیں تانیں اور انہیں فائرنگ کا نشانہ بنایا۔
احمد محمد ایک نوجوان سیاہ فام مسلمان ہے اور مذکورہ واقعے سے ملتا جلتا کوئی دوسرا واقعہ اسکے کسی ہم مذہب اور ہم قوم کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے ممکن ہے وہ محمد احمد کی طرح خوش قسمت واقع نہ ہو جسے سوشل میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے بہت کم وقت میں دہشتگردی اورنقص امن جیسے الزامات سے نجات مل گئی