الوقت- قابل توجہ جنگی ساز و سامان اور آل سعود کی رہبری میں تشکیل دی گئی اتحادی فوج کہ جسے مغربی یمن کے مرکز میں مستقر کیا گیا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ مارب کے معرکے میں ریاض میڈیا کی نفسیاتی جنگ کے باوجود انصار اللہ فورسز نے پہلے دو دنوں میں ہی عرب اتحادی فورسز پر کاری ضرب لگائی تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ سعودی عرب نے جو خواب یمن کے خلاف دیکھا ہے وہ اسے صنعا کے شرق میں ہی دفن کرنے کا مصمصم ارادہ رکھتے ہیں۔
یمن کی جنگ میں مارب کا معرکہ فیصلہ کُن مراحل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ یمن کے دارالحکومت تک پہچنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں تاکہ مارب پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکیں اور شرق سے صنعا پر حملہ کر سکیں۔ اسی طرح سعودی عرب کا کہنا ہے کہ مارب کے علاوہ صنعا کے جنوب میں واقع شعر تعز کے علاقے بھی یمن کے دارالحکومت تک پہنچنے کے لئے انکے لئے ترجیح رکھتے ہیں۔
دوسری جانب اسی دوران سعودی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے مارب کی جنگ کے بارے میں بہت جنجال بپا کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے عرب الائنس کو ہر قیمت پر اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنی چاہیئے۔ چیٹ ھام ھاوس تھنک ٹینک کے تجزیہ کار حسن حسن جو شام میں حکومت مخالف مسلح گروہوں کے حامی ہیں انہوں نے مارب کے شرق میں واقع صافر چھاونی پرانصاراللہ کے میزائل حملہ کہ جس کے تتیجے میں عرب الائنس کے 300 فوجی، جن میں 52 اماراتی فوجی بھی شامل تھے، کے بارے میں اپنی نیشنل انٹریسٹ کے نام سے موسوم ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ عرب دنیا کے پاس اپنی طاقت کو ثابت کرنے کے لئے مارب کی جنگ میں کامیابی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
اسی طرح امریکی اخبار کرسچن سائنس مانیٹر لکھتا ہے کہ " سعودی عرب اور خلیج فارس کے سنی عرب اتحادیوں کے صوبہ مارب کی یہ جنگ گذشتہ 80 سال میں بہت بڑی فوجی کارروائی محسوب ہو گی"۔ سعودی عرب کے بعض فوجی ذرائع نے بھی اس امریکی اخبار کو بتایا ہے کہ 1934ء کے بعد مارب کی جنگ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے لئے فوجی طاقت کا سب سے بڑا مظاہرہ ہے کہ اس میں کامیابی نہ صرف یمن بلکہ پورے علاقے پر بہت اہم اثر ڈالے گی کیونکہ اسی روش کو شام میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے، لیکن مبصرین کا اس بات پر زور ہے کہ مارب، عدن سے مختلف ہے، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ علاقہ اتحادی فوجوں کے لئے قبرستان میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔
آخرکار یہ معرکہ کہ جسے سعودی میڈیا نے بہت زور و شور سے کوریج دی 13 ستمبر بروز اتوار کو ریاض کے سرکاری اعلان سے اس کا آغاز ہوا۔ مقامی ذرائع نے رپورٹ دی کہ اتوار اور پیر کے دن تبہ المصاریہ کے اسٹرٹیجک علاقے میں شدید لڑائی جاری رہی، اور مارب سے آخری دو دن کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتحادی افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
انصاراللہ کے مجاہدین نے اروگان، مارب میں واقع اتحادی افواج کے تیسرے کمانڈ سنٹر کو ہدف قرار دیتے ہوئے دسیوں میزائل برسائے۔ میڈیا ذرائع نے پہلے دو دن کی جنگ میں ہی 24 بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے اور اس کے علاوہ 14 غیر ملکی فوجی کہ جن میں قطر کا ایک سینئر ملٹری آفیسر بھی شامل ہے، کے مارے جانے کی اطلاع دی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی مارب کے معرکے میں اپنے ایک عرب فوجی کے مارے جانے کی خبر کی تائید کی ہے۔ اسی دوران پیر کی شب کے اواخر میں یمن کی وزارت دفاع کے ترجمان نے اعلان کیا، " کہ ہماری افواج نے کافی زیادہ تعداد میں قطری، اماراتی، بحرینی اور سعودی فوجیوں کو اسیر بنایا ہے، ان کی تصاویر منگل کے دن میڈیا پردکھائی جائینگی"۔
مارب کی جنگ میں ایک اور اہم ترین کام جو انصاراللہ کے توسط انجام پایا وہ یہ کہ انہوں نے مارب شہر سے صروہ (جو مارب کے شرق میں 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ) تک متحدہ عرب امارات اور سعودی افواج کو امداد کے تمام پہنچنانے والےراستے بند کر دیئے۔ یمنی تجزیہ کار ھیکل بافنع نے اپنے ٹویٹر پیج پر اس خبر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ " اگر یہ درست ہو کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی فوجی مارب میں گرفتار ہوئے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ صحرائے رملۃ االسبعتی کا محاصرہ ہو چکا ہے۔
مارب کے معرکے کے پہلے دو دن کی میدانی صورتحال سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی الائنس کے لئے یہ ایک دردناک آغاز تھا کیونکہ میڈیا پر بڑے زور و شور سے اس کی تشہیر کی گئی تھی، اور جیسا کہ مبصرین نے خبردار کیا تھا کہ یمن کے شمال میں سعودیوں کو بہت مشکل حالات درپیش ہوں گے، مارب کی صورتحال پہلے سے بھی زیادہ اس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ یمن سعودی عرب اور امارات کے لئے ویتنام میں تبدیل ہو گیا ہے۔