الوقت- امریکی صدر باراک اوباما نے جب سے دہشت گرد گروہ داعش کو کمزور کر کے اس کا قلع قمع کرنے کا وعدہ کیا ہے اس کے بعد سے نہ صرف اس گروہ نے عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر لیا ہے بلکہ بعض نئے علاقوں میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ امریکہ کے سرکاری حکام کی جانب سے عراق اور شام میں اس دہشت گرد گروہ کے زیر قبضہ علاقوں میں کمی آنے اور اس کے ہزاروں عناصر کی ہلاکت کے دعووں کے باوجود عراق کے رمادی شہر اور صوبہ الانبار کے بڑے علاقے پر اس گروہ کے قبضے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس گروہ کے خلاف اب تک انجام دیئے جانے والے اقدامات کافی نہیں ہیں۔ دریں اثناء امریکہ کے لئے بھی اس گروہ کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ داعش نے امریکہ سمیت یورپ والوں کو پوری دنیا میں اپنے حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔
داعش کے مقابلے کے لئے امریکی حکمت عملی کا جائزہ:
اگرچہ امریکی صدر باراک اوباما نے داعش کا مقابلہ کرنے پر مبنی امریکی کوششوں کا ذکر کئي بار کیا ہے لیکن ان پر بارہا یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ان کی حکومت کے پاس اس سلسلے میں کوئي حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ گزشتہ برس امریکی حکومت نے دنیا کے ساٹھ ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر داعش مخالف اتحاد قائم کیا تھا جس کا مقصد طویل مدت میں داعش کو شکست دینا تھا۔ لیکن اس سلسلے میں کوئي کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی اور امریکی صدر کی تقریروں کو عملی جامہ نہ پہنایا گیا حالانکہ داعش کا قلع قمع کرنے یا کم از کم اس کو پسپائی پر مجبور کرنے کے لئے وسیع پیمانے پرکوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
موثر اقدام:
عراق میں داعش کا قلع قمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے والے محاذ کو ضروری وسائل و امکانات فراہم کئے جائيں اور امریکہ اپنے اقدامات میں تیزی پیدا کرے۔ اب تک داعش کا مقابلہ کرنے والوں کو داعش پر فتح پانے کے لئے ضروری وسائل و امکانات ہی فراہم نہیں کئے گئے ہیں۔ عراق میں داعش پر فتح حاصل کرنے کے لئے درج ذیل اقدامات کا انجام دیا جانا ضروری ہے۔
· عراق میں مربوط فوجی اور سیاسی منصوبوں کی امریکہ کی جانب سے سفارتی حمایت میں شدت
· سنّی قبائل کے ساتھ اتحاد کے دائرے میں وسعت اور ان کی حمایت حاصل کرنا
· سنّی قبائل اور کرد پیشمرگہ فورس کا مسلح کیا جانا
· آپریشن مکمل ہونے تک میجروں کی سطح کے فوجی مشیر عراق بھیجنا اور عراقی کمانڈروں کو مشورے دینا
· آپریشن کی ساری کارروائی کے دوران فضائی حملے جاری رکھنا
· شام کے ارد گرد داعش کی شکست کے لئے اس پر ہمہ گیر دباؤ ڈالنا
· افغانستان میں سنہ دو ہزار سولہ اور اس کے بعد امریکی فوجیوں کی تعداد سے متعلق شرائط پر مبنی نیا فیصلہ کرنا
داعش کے مقابلے کے لئےبین الاقوامی محاذ کی تقویت
· سوشل میڈیا پر داعش کے پروپیگنڈے کا مقابلہ
اگرچہ متحدہ عرب امارات اور تیونس جیسے ممالک کی حکومتوں کا تعاون اس سلسلے میں اہمیت کا حامل ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ امریکہ ان اقدامات کو کامیاب بنانے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کے اہم شعبوں اور این جی اوز کا تعاون حاصل کرے مثلا گوگل یوٹیوب پر پوسٹ کی جانے والے ہر ویڈیو کا جائزہ لے اور جس ویڈیو کے ذریعے تشدد کی ترویج کی گئی ہو اسے وہاں سے ہٹا دے۔ اس کمپنی نے حال ہی میں جوانوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں مہارت رکھنے افراد اور سرکاری تنظیموں کے تعاون کے ساتھ دہشت گرد گروہ داعش کے پروپیگنڈے کے مقابلے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح کی ہر کوشش کی حمایت کی جانی چاہئے۔
طویل المیعاد اقدامات
داعش کے مقابلے کے لئے مذکورہ قلیل المیعاد اقدامات انجام دینے کے علاوہ امریکہ کو انتہاپسندی اور تشدد کی روک تھام کے لئے اپنے اقدامات پر بھی نظر ثانی کرنی چاہئے۔ انتہا پسندی اور تشدد کی روک تھام کےلئے بعض دوسرے اقدامات بھی انجام دیئے جا سکتے ہیں جن میں اعتدال پسند اسلامی گروہووں کی حمایت اور انتہاپسندی کے خطرے سے دوچار معاشروں کی مدد جیسے اقدامات شامل ہیں۔ البتہ ان اصولوں اور قواعد کو منصوبوں اور پالیسیوں میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں بعض سوالات ضرور اٹھیں گے۔ مثلا کیا امریکہ کو سعودی عرب پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ اسلامی دنیا میں وہابیت پھیلانے سے باز آجائے؟ کیا امریکہ کو اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ عرب حکومتیں اپنے عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں؟ کیا امریکہ کو عرب دنیا میں جمہوریت کی تقویت کرنی چاہئے یا ان کو اس بات کی اجازت دینی چاہئےکہ وہ تشدد سے کام لے کر امن قائم کریں؟ ان تمام سوالات کے بہت آسان جواب موجود ہیں اور یہ جواب طویل مدت میں دہشت گرد گروہ داعش کے مقابلے کی بنیاد شمار ہوتے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ اقدامات انجام دینے سے عراق اور شام میں دہشت گرد گروہ داعش کے مقابلے میں شدت پیدا ہوگي اور اس کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ آگے بڑھے اگرچہ اس سے امریکی فوجیوں کے لئے خطرات پیدا ہوں گے لیکن کچھ نہ کرنے کا خطرہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔