الوقت-کئي برسوں کے بعد امریکیوں نے تشہیراتی اور سیاسی جنگ شروع کرتے ہوئے داعش دہشتگرد گروہ کو امن عالم اور مغربی ملکوں کے لئے بڑا خطرہ قراردیا۔ یاد رہے امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ہی داعش جیسے خونخوار گروہ کو جنم دے کر پروان چڑھایا ہے۔ امریکیوں اور اسکے اتحادیوں نے اس کے بعد ایک اتحاد قائم کرکے شام و عراق میں داعش کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ جون دوہزار چودہ سے اگر داعش کی کارکردگي اور اسکے اقدامات کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ دکھائي دیے گا کہ امریکہ نے عراق کے متعدد صوبوں پر داعش کے حملوں کو نظر انداز کیا ہے۔ تھامس فریڈمین نے صدر اوباما سے جواگست دوہزار چودہ کو انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے( فریڈمین نے) موصل، سنجار پہاڑی علاقوں اور تلعفر میں عیسائيوں ایزدیوں اور ترکمن اقوام پر داعش کے مظالم پر امریکہ خاموشی کا راز فاش کیا۔ یاد رہے کچھ ہی مدت بعد داعش کے تعلق سے امریکہ کی پالیسی کنٹرول اور سرمایہ کاری سے ہٹ کر مقابلے کی پالیسی میں تبدیل ہوگئي۔ دراصل امریکی پالیسی میں یہ تبدیلی اس وقت آئي جب داعش نے معین شدہ حدود سے باہر نکلنا شروع کیا اور بغداد پر حملہ کرنے کےبجائے اپنے دہشتگردوں کا رخ شمالی کی طرف موڑدیا اور سنجار زمار نامی شہرون پر قبضہ کرلیا جہاں ایزدی مذہب کے لوگ آباد تھے۔ داعش نے ان علاقوں سے کرد پیشمرگہ فورس کو بھی باہر نکال دیا۔
قابل ذکرہے کہ عراقی کردستان کا علاقہ مشرق وسطی میں امریکہ کی اسٹراٹیجی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ شہر اربیل میں امریکہ نے فوجی اور جاسوسی کے اڈے قائم کررکھے ہیں جن سے پورے علاقے پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ان اڈوں میں امریکہ کے فوجی اور انٹلیجنس ماہر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کردستان عراق میں تیل کے عظیم ذخائر ہیں جنہيں چودہ بلاکس میں تقسیم کیا گيا ہے۔ امریکی تیل کمپنیاں منجملہ ایکسن موبل ان بلاکس پر مسلط ہیں۔ حال ہی میں یہ بات بھی سننے میں آئی ہےکہ پہاڑی شہروں شقلاوہ اور بیجال کے درمیاں علاقون میں یورینیم کے ذخیرے دریافت ہوئے ہیں۔یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ عراق کا کردستان مشرق وسطی میں امریکیوں کا مرکزی اڈا ہے جہاں سے وہ اس علاقے کے لئے اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کے ساتھ بھی کردستان عراق کے اسٹراٹجیک تعلقات ہیں۔ اسی بنا پر اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر جن میں رائےعامہ کی توجہ حاصل کرنے اور داعش کے ہاتھوں چند امریکی شہریوں کے سرقلم کئے جانے کے بعد امریکہ نے پیشمرگہ کے لئے ہتھیار اور اس علاقے کے لئے فوجی ماہرین بھیجنے میں بڑی تیزی دکھائي۔
امر واقعہ یہ ہےکہ جب تک داعش نے عراقی کردستان کی طرف رخ نہیں کیا تھا امریکہ اس تکفیری دہشتگرد گروہ کو علاقے میں ایران کے اتحادیوں کو کمزور کرنے کی غرض سے اپنے لئے اور اپنے مفادات کی راہ میں مفید سمجھ رہا تھا لیکن اربیل پر داعش کاحملہ اور موصل و سنجار میں اقلیتوں کے قتل عام کے بعد سے مغربی ممالک نے داعش کو خطرہ قرار دے کر اس کے خلاف حملے شروع کردئے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر امریکہ نے اگست کے مہینے کے آغاز سے موصل ڈیم کے قریب داعش کے ٹھکانوں پر فضائي حملے شروع کردئے۔ اس کے بعد صدر اوباما نے گيارہ ستمبر کے حملوں کی یاد مناتے ہوئے داعش کے خلاف اتحاد کا اعلان کردیا۔ ا تحاد کی تشکیل کے موقع پر تقریبا ساٹھ ملکوں نے اس میں شمولیت کی حامی بھری تھی لیکن کچھ مدت کے بعد ان ملکوں کی تعداد چالیس ہوگئی اور جب اس اتحاد نے عملی شکل اختیار کی تو اس میں شامل ملکوں کی تعداد مزید گھٹ گئي۔ سب کا کہنا ہےکہ امریکی اتحاد ناکام رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس اتحاد میں ایران، روس اور شام کو شامل نہیں کیا گيا ہے بلکہ اس اتحاد میں ان ہی ملکوں کوشامل کیا گيا ہےجنہوں نے داعش کو جنم دیا پروان چڑھایا اور ہر طرح سے اسکی حمایت کی۔ امریکہ کی سربراہی میں داعش کے خلاف اتحاد سے شاید یہ بات سمجھ میں آئے کہ امریکہ اور اتحادی ممالک داعش کی بیخ کنی کی کوشش کررہے ہیں لیکن دہشتگردی اور دہشتگردوں گے خلاف امریکی اتحاد کی متضاد کارکردگي یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پالیسی دہشتگردی کی بیخ کنی میں موثر واقع نہیں ہوسکتی البتہ اگر ہم یہ قبول کرلیں کہ داعش اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ نیز صیہونی حکومت کے خلاف استقامت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے تو اس کا وجود لازمی ہوجاتا ہے لیکن جب یہ سانپ اپنے آقاؤں کو ہی ڈسنے کی کوشش کرتا ہے اور مغربی ممالک اور ان کے عرب اتحادیوں کے سامنے پھنکارنے لگتا ہے تو بہرحال اس کا سر کچلنے کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ داعش کو پروان چڑھانے والوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ضعیف اور قابل کنٹرول داعش علاقے میں ان کے مفادات کے لئے ضروری ہے تاکہ جب بھی ضرورت پڑے اس دہشتگرد گروہ کو استعمال کرکے ضروری تبدیلیاں لائي جاسکیں۔