الوقت- پاکستان میں ضرب عضب آپریشن یوں تو وزیرستان اور پاکستان کے دیگر قبائلی علاقوں میں شروع ہوا لیکن جلد ہی اس کا رخ کراچی کی طرف ہوگیا۔پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں کے اعداد و شمار اگر اکھٹے کئے جائیں تو واضح ہوتا ہے کہ کراچی شہر سے سے زیادہ دہشتگردی کا شکار رہا ہے ۔اہم اقتصادی شہر ہونے کی وجہ سے بھی اس کو مختلف مشکلات سے نکالنا فوج کا اہم ٹارگٹ تھا۔دہشتگردی اور امن و امان کی بحالی کے ساتھ پاکستان کی سیکوریٹی فورسز نے بدعنوان عناصر کے خلاف بھی کچھ سرگرمیاں شروع کیں جس پر سیاسدانوں بالخصوص سندہ کی حکمران جماعتوں کا سیخ پا ہونا ایک فطری عمل تھا۔بہرحال پاکستانی فوج نے اس آپریشن کا دائرہ توقع سے زیادہ بڑھا دیا ہے جسکی وجہ سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی طرف سے سخت ردعمل شروع ہوگیا ہے ۔فوج کے ایک آپریشن کے نتیجے میں گذشتہ دنوں کچھ افراد مارے گئے جس کو بنیاد بنا کر ایم کیو ایم نے ہڑتال کی کال دی ہے۔پاکستان کی اقتصادی شہ رگ شہر کراچی کے عوام نے متحدہ قومی مومنٹ کی ہڑتال کی کال کو نظر انداز کردیا جس پر حکام نے ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ جیو ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں سیکورٹی فورس کے ترجمان نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ عوام نے کراچی کے امن و امان کے دشمنوں کی دھمکیوں کا منفی جواب دیا ہے اس پر حکومت ان کا شکریہ ادا کرتی ہے۔ اس بیان میں آیا ہے کہ کراچی کے عوام اور سکیورٹی فورسز شہر میں امن و امان کی بحالی کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ واضح رہے سیکورٹی فورسز کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد اس پارٹی نے شہر کراچی میں ہڑتال کی کال دی تھی۔ایم کیوایم نے الزام لگایا ہے کہ سکیورٹی فورسز اس کے کارکنوں کے ساتھ ماوراء عدالت اقدامات کررہی ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور سیکورٹی فورسز نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ کراچی اور دیگر شہروں میں امن وامان قائم کرنے کے لئے دہشتگردی کا مقابلہ جاری رہے گا۔
اگرچہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے اپنی تازہ رپورٹوں میں القاعدہ کے عناصر کو کراچی کے حالیہ بدامنی کے واقعات میں ملوث قراردیا ہے لیکن پاکستان کی فیڈرل اور صوبائي حکومتیں اس امکان کو مسترد نہیں کرتی ہیں کہ کراچی میں جاری بدامنی میں سیاسی پارٹیوں سے وابستہ مسلح گروہ، ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتی اور اغوا کی وارداتوں میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان کے سکیورٹی ادارے اور عدالتیں مختلف پارٹیوں بالخصوص متحدہ قومی مومنٹ کے سربراہوں اور کارکنوں پر فرد جرم عائد کرکے ان کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں تا کہ کراچی میں امن بحال کیا جاسکے۔ ایسا لگتا ہے کہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے عوام کو یہ آگہی دینا اور یہ مہم کہ بعض سیاسی پارٹیاں کراچی میں بدامنی پھیلانے میں ملوث ہیں موثر واقع ہوئي ہے اور عوام نے اسی کے زیر اثر متحدہ قومی مومنٹ کی ہڑتال کی کال کو نظر انداز کردیا۔ یہ امر کراچی میں سیاسی اور سیکورٹی لحاظ سے ایک اہم تبدیلی ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے باسی اب اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کے لئے پارٹی مفادات سے بڑھ کر پائدار امن اور استحکام اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارٹیوں اور پارٹی لیڈروں نے عملا یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ محض اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات کی فکر میں ہوتے ہیں اور ان کی نظر میں قومی مفادات کی کوئي اہمیت نہیں ہوتی۔اس میں صرف متحدہ قومی مومنٹ ہی شامل نہیں ہے بلکہ پیپلز پارٹی پر بھی حکومت اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے کچھ الزامات لگائے جارہے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے کوچئيرمین آصف علی زرداری نے دہشتگردی اور بدعنوانیوں کے خلاف حکومتی محکموں کی کاروائیوں کو انتقامی کاروائياں قرار دیا ہے۔انہوں نے پیپلز پارٹی اور سندھ اسمبلی کے رکن علی نواز شاہ کو سنائي گئي پانچ برس قید کی سزا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علی نواز شاہ پر مقدمہ چلاکر فیڈرل ادارے پیپلز پارٹی سے انتقام لے رہے ہیں۔ پاکستان میں احتساب بیورو نے حال ہی میں سندھ اسمبلی کے رکن علی نواز شاہ کو مالی بدعنوانیوں کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائي ہے۔ آصف علی زرداری نے چند دنوں قبل اپنےحامیوں کی گرفتاری کے بارے میں کہا تھا کہ پاکستان کی فیڈرل انوسٹی گيشن ایجنسی اور احتساب بیورو حکومت اسلام آباد کے اشاروں پر پاکستان پیپلز پارٹی سے انتقام لے رہی ہے۔ البتہ پاکستان کی فیڈرل حکومت نے یہ الزامات مسترد کئے ہیں۔ پاکستان میں ماضی مین بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ ایک پارٹی اقتدار میں آکر دوسری پارٹی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتی رہی ہے اگر کراچی میں جاری حالیہ آپریشن اور بدعنوانی کے خلاف مہم ماضی کی طرح ہے تو اس کا کامیاب یا مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ناممکن ہے تاہم اگر حکومت اور سیکوریٹی ادارے بالخصوص فوج مصمم اور مضبوط عزم و ارادے سے اس مسئلہ کو آگئے بڑھانا چاہتی ہے تو کراچی سمیت پورے پاکستان میں امن و امان قائم کرنافوج کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔