الوقت- دہشتگردی کےعفریت نے اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ تمام دنیا بالخصوص اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اکثر مسلمان ممالک یا تو براہ راست دہشت گردی کا شکار ہیں یا دہشتگردی انکی سرحدوں پر دستک دے رہی ہے اسی خوف کے تناظر میں دنیا کے مختلف ممالک میں دہشتگردی کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کے لئے اجلاسوں کا انغقاد ہوتا رہتا ہے حال ہی میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ دنوں او آئی سی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اسلامی تعاون تنظیم کی بین پارلیمانی یونین کی ایگزیکیٹیو کمیٹی نے انسداد دہشتگردی کی دستاویز کے مسودے کو منظوری دیدی ہے۔ اسلامی ملکوں کی بین پارلیمانی یونین کی ایگزیکیٹیوکمیٹی کا چونتیسیواں اجلاس دو دنوں تک اسلام آباد میں جاری رہا، یہ اجلاس گذشتہ ہفتہ ایک بیان جاری کرکے اختتام پذیر ہوگیا۔ اس نشست میں ایگزیکیٹو کمیٹی کے نمائندوں نے انسداد دہشتگردی کی دستاویز کے مسودے کی منظوری دی، اس مسودے کا جائزہ دبئي میں اسلامی بین پارلیمانی یونین کی ایگزیکیٹیوکمیٹی کے اجلاس میں لیا گيا تھا۔ یہ مسودہ آئندہ برس کے آغاز میں بغداد میں ہونے والے اسلامی ملکوں کی پارلیمانوں کے سربراہی اجلاس میں پیش کیاجائے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان، لبنان، ترکی، عراق، آئيوری کوسٹ، چاڈ، الجزائر، مراکش، ملائيشیا، یوگینڈا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، گينی اس ایگزیکیٹیو کمیٹی کے رکن ہیں۔ اسلام آباد اجلاس میں ایرانی وفد نے پارلیمنٹ میں تحقیقاتی مرکز کے سربراہ اور قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے رکن کاظم جلالی کی سربراہی میں شرکت کی تھی۔ اسلام آباد اجلاس کے اختتامی بیان میں کہا گیا ہے کہ بغداد میں اسلامی پارلیمانوں کے سربراہی اجلاس میں علاقائی ملکوں میں دہشتگردوں کے حملوں کے نتیجے میں علاقے کے مختلف ملکوں میں پناہ لینے والے افراد کا مسئلہ بھی ایجنڈے میں شامل رہے گا ۔ کاظم جلالی کے مطابق اسلام آباد اجلاس میں اسلامی ملکوں سے مطالبہ کیا گيا ہے کہ جن ملکوں میں دہشتگرد سرگرم عمل ہیں ان میں مزید لوگوں کو آوارہ وطن ہونے سے بچانے اور انہیں مزید نقصان سے محفوظ رکھنے کے لئے ان کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے۔ واضح رہے حالیہ چند برسوں میں علاقے کے بعض ملکوں کے عوام دہشتگردوں کے حملوں اور ان کے وحشیانہ اقدامات کا شکار بن چکے ہیں۔ شام اور اس کے بعد عراق اس وقت مختلف ممالک کے شہریوں پر مشتمل دہشتگرد گروہوں کےحملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ان میں ایک گروہ داعش بھی ہے جس نے ان ملکوں میں بےشمار انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں۔
عراق اور شام کے دسیوں لاکھ باشندے مختلف شہروں میں پھیلی وسیع بدامنی کا شکار ہوچکے ہیں یہانتک کہ شام میں انسانی جانوں کا ضیاع حد سے بڑھ گيا ہےاور ہر روز ان ہلاکتوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔افغانستان و پاکستان میں بھی دہشتگردانہ اقدامات اور دھماکے اور مختلف گروہوں بالخصوص طالبان کے حملوں کی وجہ سے ان ملکوں میں امن و سلامتی کو شدید خطرے لاحق ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف یمن پر آل سعود کی جارحیت کئي ماہ سے جاری ہے جس کے نتیجے میں یہ غریب عرب ملک ایک بحران زدہ سرزمین میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ بعض مغربی ممالک مختلف ملکوں میں جاری دہشتگردی کے پیچھے ہیں لیکن آج امن پسندی کا ڈرامہ کرکے یہ دعوی کررہے ہیں وہ پناہ گزینوں کی مدد کرنے اور جھڑپیں ختم کرانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ان کے ان اقدامات سے جنگ زدہ اور پناہ گزین افراد کے حصےمیں مختصر سی عارضی مدد نیز محض تشہیرات کے شوروغل کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا ہے۔ جس چیزکی اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ علاقے کے ملکوں کو باہمی تعاون اور مشترکہ طور پر امن و امان کا حامل ہونے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے یہ کوشش کرنا چاہیے کہ بحران زدہ ملکوں سے آوارہ وطن ہونے والے افراد کی بڑھتی ہوئي تعداد میں کمی آسکے۔ یہی مسئلہ اسلام آباد اجلاس میں ہونے والی گفتگو کا ایک بنیادی محور تھا جو گذشتہ دودنوں میں اسلام آباد میں منعقد ہوا ہے۔ اس اجلاس کے اختتامی بیان میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کا سنجیدگي سے مقابلہ کرنے پر زور دیا گيا ہے اور اسلامی ملکوں کی بین پارلیمانی یونین کی ایگڑیکیٹو کمیٹی کے ارکان نے لبنان، شام اور عراق کے بعض حصوں پر دہشتگردوں کے قبضے کی مذمت کی ہے۔ اس بیان میں فلسطینی قوم اور صیہونی حکومت کے خلاف اس کی مسلحانہ جدوجہد اور استقامت نیز دہشتگردی کے مقابلے میں عراقی قوم اور حکومت کی جدوجہد کی حمایت کی گئي ہے۔ اس سے قبل اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے دہشتگردی کے مقابلے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں دنیا کو تشدد سے پاک کرنے نیز دہشتگردی کے سے مقابلہ کرنے میں اتحاد پر مبنی تجویزیں دی تھیں۔ جنہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا ہے۔ ان امور پر توجہ کرنے سے دہشتگردی کے خلاف حقیقی معنی میں قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔
دہشتگردی کے موضوع پر ہونے والے ان اجلاسوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ دہشتگردی کی جڑوں اور اس عالمی سازش کے پیچھے چھپے عناصر کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے ۔اسلامی ممالک ہوں یا عالمی برادری اسے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے کچھ دلیرانہ فیصلے کرنے ہوں گے چاہے اسکے لئے بعض بڑی طاقتوں کی مخالفت بھی مول لینی پڑے ۔آج یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ عالمی دہشتگردی کے پیچھے امریکہ اور صیہونی لابی کا ہاتھ ہے اگر دنیا اس ادراک کے ساتھ آگئے بڑھے تو مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ورنہ یہ اجلاس،کانفرنسیں اور سیمینار نشستند اور برخاستند کے علاوہ کچھ نہیں ہونگے۔