الوقت- پاکستان اور افغانستان میں ایک مخصوص انتہا پسند ٹولے نے مسلمان آبادی بالخصوص لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے یہ گروہ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انتہائی تیزی سے سرگرم ہے اور اس حوالے سے اس نے اب تک سیکنڑوں اسکولوں کو بموں سے اڑایا ہے ۔لڑکیوں کے اسکولوں کو فائرنگ کا نشانہ بنانا،انکو آگ لگا کر تباہ کرنا اسی طرح ان اسکولوں میں آنی والی بچیوں کو ہراسان کرنا اس گروہ کا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے ۔اس گروہ کا جس علاقے پر قبضہ ہوتا ہے وہاں لڑکیوں کی تعلیم کا زکر کرنا بھی جرم تصور کیا جاتا ہے۔اس انتہا پسند گروہ نے اپنے مذموم مشن کو جاری رکھتے ہوئے اب نئی روش شروع کی ہے تاکہ لڑکیوں کے والدین اپنی بچیوں کو اسکولوں میں نہ بھیجیں۔نئی روش میں گرلز اسکولوں میں مخصوص زہریلی گیس چھوڑی جاتی ہے جس سے اسکول میں موجود بچیاں بری طرح متاثر ہوتی ہین اور نتیجتا والدین اپنی بچیوں کی زندگی کی خاطر انہیں اسکول سے نکال لیتے ہیں تازہ ترین خبروں کے مطابق افغانستان میں اسکولوں پر زہریلی گيس سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
افغانستان کے صوبہ ہرات میں اسکول کی تین سو بچیاں زہریلی گيس سے شدید متاثر ہوگئی ہیں۔ افغانستان میں اسکول کے بچوں پر زہریلی گيس سے حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں میں صوبہ ہرات میں یہ پانچواں واقعہ ہے جس میں اسکول کےبچوں پر زہریلی گيس سے حملے کئے گئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ افغانستان میں ایک ہزار اسکولی بچے زہریلی گيس کے حملوں سے دوچار ہوچکے ہیں۔ افغان حکام طالبان کو اس طرح کے حملوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں کابل، تخار، کاپیسا، غزنی اور بامیان سمیت دیگر علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولوں پر زہریلی گيس سے حملے کئے گئے تھے، اسی وجہ سے اسکولی بچوں کے زہریلی گيس سے متاثر ہونے کا مسئلہ افغاں قوم کے لئے ایک تشویشناک امر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آلودہ پانی کا استعمال اور زہریلی گيس کی زد میں آنا لڑکیوں کے زہر سے متاثر ہونے کے جملہ عوامل میں سے ہیں اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے جس پر تشویش ظاہر کی جارہی ہے اور یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ افغانستان کی حکومت اور سکیورٹی ادارے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے خاص اقدامات کریں۔ واضح رہے افغانستان میں انتہا پسند دھڑے لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں اور اب تک انہوں نے طالبات پر زہریلی گيس سے حملے کرکے انہیں تعلیم چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے۔ صوبہ ہرات کے حکام کا خیال ہے کہ دہشتگرد اور انتہا پسند عناصر نے اپنے پروگرام بدل کر اب اغوا کی وارداتوں کو چھوڑ کر اسکولی بچوں پر زہریلی گيس سے حملے کرنے شروع کردئے ہیں جو کہ ایک نہایت خطرناک امر اور افغان گھرانوں کی تشویش کا باعث ہے۔ اسی وجہ سے حال ہی میں ہرات میں شہری حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد اورتنظمیوں نے بڑے احتجاجی مظاہرے کرکے اسکول کی لڑکیوں پر زہریلی گيس کے حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں میں جو ہرات میں وزارت تعلیم کے سامنے ہوئے ہیں مظاہرین نے اعلان کیا ہے کہ طالبات پر زہریلی گيس کے حملے اب ناقابل برداشت ہوچکے ہیں اور حکومت کو ان جرائم کا سنجیدگي سے نوٹس لینا چاہیے۔شہری حقوق کے لئے کام کرنے والوں کی نظر میں اسکولی بچیوں پر زہریلی گيسوں سےحملے کرنے والے عناصر مدارس کے اندر گھسے ہوئے ہیں اور غیر ملکی جاسوس تنظیموں سے رابطے میں ہیں۔ افغانستان میں اسکولی بچیوں پر زہریلی گيس کے حملوں کے جاری رہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کی حکومت نے اس مسئلے کا سنجیدگي سے نوٹس نہیں لیا ہے اور اسی وجہ سے اپنے بچوں کی سلامتی کے سلسلے میں افغان رائے عامہ بالخصوص افغان والدین کا اعتماد اپنی حکومت سے ختم ہوسکتا ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ انتہا پسند مذہبی ٹولہ بـچیوں کو تعلیم سے کیوں محروم کرنا چاہتا ہے کیا اس گروہ کا مقصد آئندہ نسل کو تعلیم سے بے بہرہ اور جاہل و ناخواندہ رکھنا ہے ۔یہ گروہ نئی نسل کو جاہل رکھ کر اپنے کونسے مقاصد پورے کرنا جاہتا ہےافنانستان اور پاکستان کے پٹھان معاشرے کو اس پر غوروخوض کی ضرورت ہے۔