الوقت- شام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شام میں روس کی فوجی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ روس کی فوجی سرگرمیاں شام کا بحران حل کرنے کی سفارتی کوششوں کےساتھ ساتھ جاری ہیں۔ ساسی مبصرین کا کہنا ہے کہ روس فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنی سفارتکاری کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔ روس کے ان نئے اقدامات سے لگتا ہے وائٹ ہاوس کو تشویش لاحق ہوچکی ہے کیونکہ اسکے نتیجے میں شام میں امریکہ کے اتحادیوں منجملہ خونخوار دہشتگرد گروہ جبھۃ النصرہ بھی نشانہ بن رہا ہے۔
اخبار گارڈین نے امریکی سکیورٹی حکام کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ روس شام میں ایک فوجی اڈا بنا رہا ہے۔ امریکی سکیورٹی حکام جن کے نام کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے کہا ہےکہ روس نے لاذقیہ بندرگاہ میں ایک ایر کنٹرول ٹاور بنایا ہے اور ایک ہزار افراد کے لئے پہلے سے تیار شدہ گھر بھی بھیجے ہیں۔ لاذقیہ میں اکثریت علویوں کی ہے اور یہ شہر بشار اسد کی جائے پیدائش بھی ہے۔ گارڈین کی رپورٹ کے مطابق روس نے رواں مہینے میں شام کے ہمسایہ ملکوں سے فوجی ٹرانسپورٹ طیاروں کو گذرنے کی اجازت بھی مانگي ہے۔ادھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ پہلے سے تیار شدہ گھروں کو اس علاقے میں منتقل کرنے سے روس لاذقیہ ایر پورٹ کو شام کے لئے ہتھیار لانے یا ممکنہ طور پر بشار اسد کی افواج کی حمایت میں فوجی کاروائيوں کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔
گذشتہ دنوں میں شام میں روس کی بڑھتی ہوئي فوجی سرگرمیوں کےبارے میں متعدد رپورٹیں سامنے آئي ہیں۔ صیہونی اخبار یدیعوت احارونوت نے صیہونی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ روس کی فضائیہ کے افسروں کو دمشق کے نزدیک ایک فوجی اڈے پہنچا دیا گيا ہے اور آئندہ چند دنوں میں روس اپنے جنگي طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سے داعش کے خلاف کاروائياں شروع کرے گا۔ اس صیہونی اخبار نے خبری ذرایع کےحوالے سے امکان ظاہر کیا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں شام میں روسی فوجی ماہرین جیسے فوجی مشیروں، ٹریننگ افسروں، اور پائلٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔ قابل ذکر ہے شام میں موجود روسی فوجیوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر شایع ہوئي ہیں۔
سفارتکاری کے لئے فوجی طاقت
روس نے شام کا بحران حل کرنے کےلئے سفارتی کوششوں کےساتھ ساتھ فوجی سرگرمیوں میں بھی اضافہ کردیا ہے۔گذشتہ ایک ماہ میں مختلف ملکوں کے وفود کو روس کا دورہ کرتے دیکھا گيا ہے جنہوں نے ماسکو میں شام کے بحران کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ روس نے شام میں اپنے فوجی کردار کو بڑھاتے ہوئے مزید طاقت کے ساتھ سفارتکاری کے میدان میں شام کےبحران کو حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتین نے کہا ہے کہ روس داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے علاقائي ملکوں کا اتحاد بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے شام میں روس کی بڑھتی ہوئي فوجی سرگرمیوں کی رپورٹوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ روس نے ہمیشہ شام کی حمایت کی ہے اور حال ہی میں اس حمایت میں تیزی آئي ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں روس کے براہ راست فوجی اقدام کے بارے میں ابھی کچھ کہنا جلدبازی ہوگي۔انہوں نے کہا کہ ماسکو تمام امکانات کو مد نظر رکھتا ہے۔
امریکیوں کو تشویش
شام میں روس کی فوجی سرگرمیوں سے امریکہ کو تشویش لاحق ہوچکی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے اس مسئلے پے تشویش کا اظہار کیا ہے۔