الوقت- اسلام میں انسانی حقوق کو جو اہمیت حاصل ہے کوئی اور مکتب اس حد تک سوچ بھی نہیں سکتا۔اسلام نے انسان کی کرامت و شرافت کا جو تصور دیا ہے دوسرے مکاتب اس تک ہر گز نہیں پہنچ سکتے انسان تو ایک طرف جانوروں کے حوالے سے اسلام نے جو نظریہ دیا ہے اسکو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا تاہم اسلام کے نام پر بعض اداروں،ملکوں حتی حکام کی طرف سے ایسے اقدامات انجام دئیے ہیں جن کی وجہ سے آج اسلام کے بارے میں عجیب و غریب سوال اٹھ رہے ہیں۔اس حوالے سے آل سعود کا کردار سب سے بھیانک ہے۔سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ شدید طرح سے جاری ہے اور اس ملک کے عوام کو کوئی امید نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں سعودی عرب کے حکام اپنی ظالمانہ پالیسیوں میں کوئي تبدیلی لائيں گے۔ شاہ عبداللہ کی موت کے بعد شاہ سلمان کے تحت پر بیٹھنے سے سعودی عرب کے عوام انسانی حقوق کی مزید پامالی کی بابت تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ علاقے میں آل سعود کی حکومت کی مداخلت پسندیوں، فتنہ انگيزیوں اور جنگ کے شعلے بھڑکانے کی وجہ سے عالمی رائے عامہ نے وسیع پیمانے پر آل سعود کے خلاف رد عمل ظاہر کیا ہے۔ اس تناظر میں واشنگٹن میں جمعے کےدن بڑے مظاہرے ہوئے ہیں جن میں آل سعود کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور علاقے میں جنگوں کی آگ پھیلانے کی مذمت کی گئي۔ امریکی اخبار یو ایس اے ٹوڈے نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ صدر باراک اوباما اور سعودی بادشاہ کی ملاقات کے موقع پر بہت سے لوگوں نےاحتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے آل سعودکی حکومت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت کی۔ یہ مظاہرے وائٹ ہاوس کے سامنے ہوئے۔ انسانی حقوق تنظیموں کے اعلان کے مطابق سعودی عرب نے اپنے بہت سے شہریوں کو پھانسی کی سزا دی ہے مخالفیں کو کچلتی ہے انہیں جیلوں میں ڈال دیتی ہے اورخواتین نیز مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تعصب سے پیش آتی ہے۔ مشرق وسطی میں ہیومن رائٹس واچ کی سربراہ سارہ لی ویٹسن نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ سات مہینوں کے اندر جب سے سلمان بن عبدالعزیز نے اقتدار سنبھالا ہے ہمیں ایسی کوئي علامت نظر نہیں آئي جس سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ اپنے ملک میں بدسلوکیوں اورانسانی حقوق کی پامالی کو روکنے کی کوشش کررہے ہوں۔ سارہ لی ویٹسن نے یمن کے خلاف آل سعود کی جنگ کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی حمایت سے یمن پر سعودی عرب کے اندھا دھند فضائي حملے اور کلسٹر بموں کا استعمال جنگي جرائم میں شامل ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہےکہ شاہ عبداللہ کی موت اور ان کے بعد شاہ سلمان کے تخت نشین ہونے کے بعد بھی انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئي فرق نہیں آیا ہے بلکہ اس سلسلے میں آل سعود کی کارکردگي بدستور سیاہ ہے۔
سعودی عرب میں انسانی اور شہری حقوق کی وسیع پامالی اور ملک چلانے کے لئے آل سعود کی جانب سے جمہوریت کے اصولوں کی شدید مخالفت کی بنا پرسعودی عرب سیاسی اور سماجی لحاظ سے ایک پسماندہ ملک شمار ہونے لگا ہے جس میں قرون وسطی کے قوانین حکمفرماہیں۔اسی بناپر سعودی عرب میں جمہوریت کی علامتیں جیسے انتخابات، سیاسی پارٹیاں اور پریس کی آزادی ناپید ہے۔ ان حالات میں آل سعود کی حکومت اپنے شہریوں کو کچل کر اپنی ظالمانہ حکومت کو جاری رکھنے کی زمین ہموار کرتی ہے۔ سعودی عرب کی حکومت عوام کو کچلنے کے اقدامات نیز اپنی ظالمانہ پالیسیوں کے لئے کسی حدو حدود کی قائل نہیں ہے اور اسی وجہ سے سعودی عرب عالمی سطح پر انسانی اور شہری حقوق کی پامالی کا ایک مرکز بن گيا ہے اور اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ادھر آل سعود نے بحرین اور یمن سمیت علاقے کے ملکوں میں اپنی مداخلت پسندی کو شدت بخش دی ہے اور عراق و شام اور لبنان میں مغربی حکومتوں کی فتنہ انگيزیون کا ساتھ دے رہی ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب کے عوام اور عالمی رائے عامہ کے نزدیک اسکی حیثیت مشکوک سے مشکوک تر ہوتی جارہی ہے۔