الوقت- اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارتی سرگرمیاں کچھ اس نوعیت کی ہیں کہ امریکہ اور مغرب کے گھاک ڈپلومیٹ بھی اس کی گہرائیوں کو سمجھنے سے قاصررہے ہیں۔ایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ ہو یا مشرق وسطی کی سیاست ہو ایران نے بڑی خوبصورتی سے اپنے کارڈ کھیلے ہیں۔عالمی سیاست میں شنگہائی تعاون تنظیم ہو یا بریکس ہر جگہ پر ایران کا بالواسطہ یا بلا واسطہ کردار دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے ۔عالمی سفارتکاری کے ماہرین ایران کی مختلف سفارتی کامیامیوں کا نہ چاہتے ہوئے بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پوری دنیا خاص کر پانچ جمع ایک ممالک کو جسطرح انگیج رکھا اور آخر تک اپنے موقف کا جس خوبصورتی سے دفاع کیا اسکی ماضی کی سفارتی تاریخ میں مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جہاں ایران نے یورپی ممالک اور امریکہ کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا وہاں نئے اتحادی بھی دریافت کئے اسکی ایک مثال ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے روس کے بعد چین کا ایران کے قریب آنا ہے ۔
اسلامی جمہوریہ ایران اور چین باہمی ایٹمی تعاون بالخصوص ایک سو میگاواٹ کے بجلی گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں اہم مشترکہ نکات اور نظریات تک پہنچے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بیجنگ سے روانہ ہوتے وقت ارنا کے صحافی سے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ آئندہ ایک یا دو مہینوں میں تعاون کی قرادادوں پر دستخطوں کے بعد ان پر عمل درامد شروع ہوجائے گا۔ علی اکبر صالحی گزشتہ دنوں ایک اعلی رتبہ وفد کے ہمراہ جس میں ایٹمی ادارے کے ماہرین بھی شامل تھے چین کے دورے پر گئے تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے بیجنگ میں اپنے دورے چین کے ایٹمی ادارے کےحکام کے ساتھ مختلف مسائل پرتبادلہ خیال کیا ہے۔ صالحی نے اراک کے ہیوی واٹر ایٹمی پلانٹ کے بارے میں بھی چینی حکام کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں۔یاد رہے ایران اور پانچ جمع ایک کے ایٹمی معاہدے میں اراک ایٹمی پلانٹ کا ذکر آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ پانچ جمع ایک گروپ نے چین کو اراک کے ایٹمی ری ایکٹر کی دوبارہ ڈیزائيننگ کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے لھذا ایران کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اس ری ایکٹر کا مالک ہونے کے ناطے پانچ جمع ایک گروپ کےساتھ اس ری ایکٹر کے تعلق سے سنجیدہ گفتگو کرتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدہ کا ایک فریق امریکہ بھی ہے وہ بیجنگ میں نہيں تھا اسی وجہ سے یہ طے پایا ہے کہ چین ایران کے ساتھ انجام شدہ مذاکرات سے امریکہ کو آگاہ کرے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی مذاکراتی ٹیم نے پانچ جمع ایک گروپ کے ساتھ مذاکرات میں جو تقریبا دو برسوں تک جاری رہے یہ کوشش کی کہ ایسا معاہدہ کیا جائے جس میں ایران کی تمام ریڈ لائينوں منجملہ پابندیاں ہٹائے جانے کو یقینی بنایا گياہو۔ان حقوق کو مکمل طرح سے ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے میں درج کیا گيا ہے۔ ایران کی ایٹمی توانائيوں اور ٹیکنالوجی کا تحفظ ان اہم اھداف میں ہے جو ایران اور پانچ جمع ایک کے معاہدے کی رو سے حاصل ہوا ہے۔ ان اھداف کے دائرہ کار میں اور ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی آئي اے ای اے کے ساتھ پہلے طے شدہ معاہدوں کے مطابق اراک کا ایٹمی پلانٹ بدستور ہیوی واٹر پلانٹ رہے گا اور جب اسکی دوبارہ ڈیزائننگ ہوجائے گي تو اس میں نئ توانائیاں آجائيں گي اور اس میں فیول ٹسٹنگ کی توانائي ہوگي اور مختلف طرح کی ریڈیو دوائيں اور ریڈیو آئزوٹوپس بنائے جاسکیں گے۔ اس معاہدے پر عمل درامد سے ایران دنیا میں ہیوی واٹر بنانے والے معدودے چند ملکوں میں شامل ہوجائے گا اور اپنی ضرورت سے زیادہ ہیوی واٹر کو عالمی منڈیوں میں بین الاقوامی قیمتوں پرفروخت کرسکےگا۔ایران اپنا اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر محفوظ رکھتے ہوئے آئندہ پندرہ برسوں میں ہلکے پانی کے جدید تحقیقاتی ری ایکٹر بنائے گا۔ ایٹمی معاہدے کے مطابق اس سلسلے میں عالمی سطح پر ایران کے ساتھ تعاون کیا جائے گا اور ایران کو ضرورت بھر کے ایٹمی فیول فراہم کرنے کی ضمانت بھی دی جائے گي۔ بیجنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی ادارے کے سربراہ کے مذاکرات اسی راستے میں ایک قدم ہے۔ تازہ شروع ہونے والے ان اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایٹمی معاہدہ کا اگر تکنیکی لحاظ سے جائزہ لیں تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس کی رو سے بعض محدودیتوں کے باوجود ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام میں سست روی نہیں آ ئے اور نہ ہی وہ رکے گا۔ آئي اے ای اے کے دائرکٹر جنرل یوکیا آمانو نے ایٹمی معاہدے کے بعد اپنی پہلی رپورٹ میں ان امور کی طرف اور ایٹمی معاہدے کے دائرے میں ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے جاری رہنے کے بارے میں اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایران کی تمام ایٹمی سرگرمیاں پرامن رہی ہیں اور ان میں قانون سے کسی طرح کا کوئي انحراف نہیں ہے۔ بہرحال اگر ایران اور چین ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مذید قریب آتے ہیں تو دونوں ملکون کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے مذید دروازے بھی کھلیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اس نئے سلسلے کو ہضم کرسکے گا یا نہیں کیونکہ اس کا فائدہ مشرق کو تو ہرصورت میں پہنچے گا لیکن اس میں سب سے زیادہ نقصان مغرب اور امریکی بالا دستی کوپہنچنے والا ہے۔