الوقت- بحرین کی انقلابی تحریک بعض ایسی خصوصیات کی حامل ہے جن کی بنا پر وہ عرب ممالک میں چلنے والی دوسری تحریکوں سے اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔ مثلا دوسرے عرب ممالک میں لوگ بہت جلد اصلاحات سے ناامید ہوگئے اور انہوں نے حکومتی نظام کو ہی اپنا نشانہ بنا لیا۔ لیکن اس کے برخلاف بحرین کے لوگوں کے مطالبات اصلاحات تک ہی محدود رہے۔ بحرین کی انقلابی تحریک دوسری جمہوری تحریکوں کی طرح سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے مطالبے کے ساتھ شروع ہوئی۔ بحرین کےعوام نے دارالحکومت منامہ میں واقع لؤلؤ اسکوائر میں مظاہرے کر کے حکومت پر سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے لئے دباؤ ڈالا۔ حمد بن عیسی آل خلیفہ نے چودہ فروری انقلاب کو بدمعاشوں اور غنڈوں کے انقلاب کا نام دے کر مظاہرین کو کچلنے کا حکم جاری کر دیا جس کے بعد اس ملک کی سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے دارالحکومت منامہ کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا۔ دریں اثناء بحرین کی سیکورٹی فورسز کی مظاہرین کے مقابلے کی توانائی نہیں رکھتی تھیں اس لئے انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مدد مانگ لی۔ چند دنوں کے بعد "سپر جزیرہ " نے براہ راست حکومت کے مخالفین کی سرکوبی کا مشن سنبھال لیا۔ بحرین کی شاہی حکومت نے اس خیال باطل کے ساتھ کہ وہ خوف و ہراس اور تشدد کے ذریعے مخالفین کو دبا دے گی مظاہرین پر اپنے حملوں میں شدت اور وسعت پیدا کر دی۔ یہاں تک بعض علاقوں کا محاصرہ کر لیا۔ اس صورتحال میں توقع یہ کی جا رہی تھی کہ تیونس، لیبیا اور شام جیسے ممالک اس کے بارے میں رد عمل ظاہر کریں گے لیکن امریکہ اور برطانیہ جیسی طاقتوں نے آل خلیفہ کے تشدد آمیز اقدامات کے سلسلے میں گرین سگنل دکھا کر بحرینی عوام پر تشدد میں شدت پیدا کئے جانے کا راستہ ہموار کر دیا۔
دوسری جانب شریف بسیونی کی سربراہی میں تشکیل پانے والی بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسی آل خلیفہ کی تحقیقاتی کمیٹی کا منفی رد عمل بھی اس ملک میں تشدد میں شدت پیدا ہونے کا سبب بنا۔ لیکن آل خلیفہ حکومت کے سارے منفی ہتھکنڈے اس ملک کے عوام کے احتجاج کی لہر کو نہ روک سکے اور اس ساری مدت کے دوران بحرین میں مسلسل حکومت مخالف مظاہرے جاری رہے۔
مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے عرب ممالک میں گزشتہ چار برسوں سے اب تک انقلابی تحریکیں چل رہی ہیں اور بعض ممالک کی حکومتیں بھی سرنگوں ہوئيں لیکن بحرین میں انقلابی تحریک ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ بحرین کی انقلابی تحریک کا جائزہ لینے کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بحرین کی آبادی کا تناسب، اہم عہدوں پر اہل تشیع کے فائز نہ ہونا ، امتیازی سلوک ، سیاسی اور اقتصادی مشکلات، سعودی عرب کا اثر و رسوخ اور امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کی تعیناتی یہ تمام ایسے امور ہیں جو ایک طرف اس ملک میں سیاسی اعتراضات شروع ہونے اور دوسری جانب اس انقلابی تحریک کی اب تک کی ناکامی کے اسباب ہیں۔
بحرین کی انقلابی تحریک کو درپیش مسائل
بحرین میں بہت سے امور انقلابی تحریک کے اب تک کامیاب نہ ہونے کا باعث بنے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا تعلق کسی نہ کسی طرح اس ملک کی جیوپولیٹیکل صورتحال سے ہے۔ ہم یہاں ان میں سےبعض امور کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
1- آل خلیفہ کی کارندوں کے ہاتھوں عوام پر شدید تشدد
2- سعودی عرب کے فوجیوں کا بحرین میں داخل ہونا اور مخالفین کو کچلنا۔
3- یورپی ممالک نیز علاقائی اور عالمی طاقتوں کی جانب سے بحرین کی عوامی تحریک کی دو ٹوک انداز میں حمایت نہ کیا جانا
4- عالمی اداروں خصوصا اقوام متحدہ کی جانب سے بحرین کے عوام کی حمایت کے لئے ٹھوس اقدامات اور فیصلے نہ کیا جانا
5- دوسری عرب تحریکوں اور بحرینی عوام کی بیداری کی تحریک میں پائے جانے والے اختلافات
بحرین کی عوامی انقلابی تحریک کی خصوصیات کا مد نظر رکھا جانا ضروری ہے کیونکہ انہی خصوصیات کی وجہ سے ہی بحرین کے عوام کی تحریک دوسرے عرب ممالک کی تحریکوں سے مختلف ہے اور نتیجتا اپنے مقصد کے حصول کے لئے ایک نئے راستے پر گامزن ہے۔ بحرینی عوام کی تحریک کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔
1- بحرین میں حکومت کے مخالفین کا کسی ایک طبقے سے تعلق نہ رکھنا۔ بحرین کا معاشرہ چونکہ مختلف قبائل اور مذاہب کے لوگوں پر مشتمل ہے اور اس طرح کی عوامی تحریکوں میں چونکہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں اس لئے تیونس اور مصر جیسے ملکوں کے ایک جیسے معاشرے کی نسبت بحرین میں حکومت کے مخالفین کے درمیان اختلافات زیادہ آسانی کے ساتھ پیدا ہو سکتے ہیں اور آل خلیفہ کی حکومت بھی اس سے بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس لئے بحرین کے عوام کے لئے اپنے مقصد کے حصول کے سلسلے میں قومی اتحاد کے سوا کوئي اور چارہ نہیں ہے۔
2- بحرین کی حکومت کے مخالف گروہوں کا واضح ہونا۔ تیونس، مصر اور لیبیا کی عوامی تحریکوں کا کوئي خاص قائد نہیں تھا یہاں تک کہ تیونس کے انقلاب کو "سر کے بغیر انقلاب" کا نام دیا گیا۔ اگرچہ ان تحریکوں میں خاص گروہ اور جماعتوں نے حصہ لیا لیکن ان کی پوری کوشش تھیں کہ ان کی شناخت منظر عام پر نہ آنے پائے۔ ان کے پیش نظر یہ مقاصد تھے –
اول : اپنے بارے میں دوسروں کی حساسیت میں کمی لانا
دوم: تحریک کے قائد کی حیثیت سے شناخت سامنے آنے پر ان کی گرفتاری، جلاوطنی یا جیل میں ڈالے جانے سے عوامی تحریک کمزور پڑ سکتی تھی۔
سوم: عوام میں اختلافات اور تفرقے کی روک تھام
لیکن بحرین میں شروع سے ہی یہ بات واضح تھی کہ عوامی تحریک کی قیادت کونسی جماعتیں کر رہی ہیں یہاں تک کہ آل خلیفہ کی حکومت اور مخالفین کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے "قومی آشتی کے مذاکرات" عمل میں لائے گئے۔ جن میں جمعیت وفاق بحرین اور وحدت پارٹی نے حکومت کے مخالفین کی حیثیت سے ان مذاکرات میں شرکت اور حکومت کے ساتھ مشاورت کی لیکن یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے اور ان جماعتوں نے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا۔