الوقت-ترکی کی حکومت کردوں اور دہشت گرد گروہ داعش کے عناصر کے ٹھکانوں پر حملے کر کے مشرق وسطی کے بحران کو ہوا دے رہی ہے۔ یورپ میں ترکی کے اتحادی ترک صدر رجب طیب اردوغان کے بارے میں کوئي اچھا تاثر نہیں رکھتے ہیں۔ رجب طیب اردوغان اپنے ملک میں ایک ڈکٹیٹر میں تبدیل ہوچکے ہیں اور وہ اپنے اختیارات میں اضافے کے لئے آئین میں ترمیم کا ارادہ رکھتے ہیں۔ غیر ملکی مسلح افراد کے ساتھ بھی انہوں نے اس قدر فیاضی سے کام لیا کہ ان کو ترکی کی سرزمین سے گزرنے کی اجازت دے دی۔ جن برسوں کے دوران دہشت گرد گروہ داعش نے شام اور عراق میں خلافت کا اعلان کیا اور امریکہ نے ان کو "معتدل بنانے اور اس کے بعد ان کی نابودی" کے لئے ایک اتحاد تشکیل دیا اس زمانے میں بھی رجب طیب اردوغان نے نیٹو کے اتحادیوں کو ترکی کے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ شائد ان کو اس بات کا خوف تھا کہ یہ دہشت گرد ترکی کو اپنا نشانہ بنا لیں گے۔ یا شائد ان کا خیال تھا کہ وہ مشرق وسطی کی جیوپولیٹیکل صورتحال میں ایک کارآمد حربہ ہیں۔ لیکن اس طرح کے خیالات بیس جولائی کو اس وقت غلط ثابت ہوگئے جب سوروچ شہر میں ایک خود کش حملے میں بتیس افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ چند دنوں کے دوران ترکی نے کہا کہ وہ امریکہ کو اینجر لیک ایئربیس استعمال کرنے اور اپنے جیٹ طیاروں کے ساتھ داعش کے ٹھکانوں پر حملے کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ رجب طیب اردوغان کو کم از کم داعش کے خطرات کے مقابلے میں شفافیت سے کام لینا چاہئے۔
ترکی کی فضائیہ زیادہ تر کردوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتی ہے جبکہ کردوں نے مختلف طریقوں سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ داعش کا مقابلہ کرنے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ وہ نسلی جذبات اور کردوں کے احساسات کو بھڑکا کر داعش مخالف جنگ کی شدت کم کرنے کا باعث ہے۔ –
اس خلافت کی بقا کی وجوہات
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کے بعد داعش کو اب تک مکمل طور پر پسپائی اختیار کر لینی چاہئے تھی۔ اس نام نہاد خلافت میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اور اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اب تک باقی ہے بلکہ اس نے مزید بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ نام نہاد خلافت اب تک اس لئے باقی ہے کہ اس کو شکست دینا کسی کی بھی ترجیح نہیں ہے۔ امریکہ کا مقصد مشرق وسطی میں اپنے فوجی مشن میں کمی لانا ہے۔ جو کہ سعودی عرب کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ بشار اسد اپنی مخالف طاقتوں کو دور رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے مخالفین ہمیشہ بشار اسد سے نجات پانے کی فکر میں رہتے ہیں۔
عراق میں گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گرد گروہ داعش کا شدید ترین مقابلہ شیعہ اور کرد فورسز جبکہ شام میں کرد پارٹی پی کے کے کے افراد نے کیا۔ شام کی کرد فورس نے جس شجاعت کے ساتھ کوبانی کا دفاع کیا اسے بہت سے ٹی وی چينلوں نے کوریج دی اور سراہا۔ ترکی نے کوبانی سے بے گھر ہونے والے عام شہریوں کو پناہ دی لیکن اس کے باوجود اس نے داعش کے خلاف لڑنے والے کرد فورس کے اہلکاروں کو کوئي اہمیت نہیں دی۔ ترکی خطے کی ایک طاقتور ترین فوج کا حامل ہونے کی وجہ سے حالات کا رخ داعش کے خلاف موڑ سکتا تھا۔ لیکن اس کی اپنی ترجیحات تھیں۔ رجب طیب اردوغان نے بشار اسد سے نجات پانے کو اپنا ذاتی مشن قرار دیا اور اس کے بعد اسے کردوں کی کامیابیوں پر تشویش لاحق تھی۔ بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ رجب طیب اردوغان شام سے بحران کے ذریعے اپنے ملک کے اندر سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سنہ دو ہزار دو میں جب انصاف و ترقی پارٹی نے ترکی میں کامیابی حاصل کی تو اس زمانے میں رجب طیب اردوغان ایک اصلاح پسند تھے اور وہ کردوں کے ساتھ سمجھوتے کے خواہاں تھے لیکن جون کے مہینے میں ہونے والے انتخابات میں کردوں کی حامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی کافی سیٹیں حاصل کیں۔ بنابریں رجب طیب اردوغان اب کردوں کے خلاف چال چل رہے ہیں۔ انہوں نے اس نقشہ راہ کو مسترد کر دیا ہے جس کے بارے میں مذاکرات ہو چکے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ رجب طیب اردوغان عراق میں پی کے کے کے ٹھکانوں پر حملوں کے ذریعے شاید رواں سال ہونے والے آئندہ انتخابات سے قبل پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا ووٹ بینک گھٹانا چاہتے ہیں تاکہ ان کو آئین کی تبدیلی کا مینڈیٹ حاصل ہو جائے۔ اس صورت میں رجب طیب اردوغان مشرق وسطی کے بحران میں ترکی کے شامل ہونے کے خطرے میں شدت پیدا کر دیں گے لیکن اگر ترک اور کرد آپس میں لڑنے کے بجائے مل کر دہشت گرد گروہ داعش کو نشانہ بناتے تو یہ ترکی، مشرق وسطی اور دنیاکے لئے بھی بہتر ہوتا۔