الوقت- یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے سربراہ عبدالملک حوثی نے جب اپنی تازہ ترین تقریر میں کہا کہ سعودی عرب کے حملے جاری رہنے کی صورت میں یمن کی سیکورٹی فورسز اسٹریٹیجک آپشنز کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیں گی تو مبصرین نے عوامی تحریک انصاراللہ کے اسٹریٹیجک آپشنز کے بارے میں قیاس آرائياں شروع کر دیں۔ انصاراللہ کے مخالف ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی کہ عبدالملک حوثی کی مراد یمن اور جیبوٹی کے درمیان واقع آبنائے باب المندب پر حملے کر کے بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے راستے میں خلل پیدا کرنا ہے۔ لیکن استقامت کے قریبی ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب کی سرزمین میں انصاراللہ کی پیشقدمی اور نجران، جیزان اور عسیر کے علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لینے پر مبنی انصاراللہ کے منصوبے کی خبر دی تھی۔ اگرچہ بعض مبصرین اور ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب کے جنوبی علاقوں میں تحریک انصاراللہ کی پیشقدمی کے بارے میں شک کا اظہار کیا تھا اور عبدالملک حوثی کے دعوے کو ایک کھوکھلا دعوی قرار دیا تھا لیکن دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں رونما ہونے والے گزشتہ ایک ہفتے کے واقعات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ تحریک انصاراللہ کے سربراہ کے وعدے کھوکھلے نہیں تھے اور یہ تحریک اسٹریٹیجک آپشنز کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں پر عزم ہے ۔ اسکڈ میزائل کا فائر کیا جانا، زمین سے فضا مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے جیزان کے علاقے میں سعودی عرب کے اپاچی ہیلی کاپٹر کی سرنگونی، سعودی عرب ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا انہدام، سعودی عرب کے ایک علاقے پر کنٹرول اور بریگيڈ اٹھارہ کے کمانڈر میجر جنرل عبدالرحمن الشہرانی کی ہلاکت ان اقدامات کا صرف ایک معمولی حصہ ہیں جن میں سعودی عرب کے جنوبی علاقے میں انصاراللہ کے جوانوں نے شدت پیدا کی ہے اور جن کی وجہ سے انصاراللہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے دی جانے والے دھمکیوں میں وزن پیدا ہوا ہے۔ یمن کے جنوبی علاقوں سے فوجی حکمت عملی کے تحت تحریک انصار اللہ کی پسپائی کے اعلان کے چند دن بعد یمن اور سعودی عرب سرحدی علاقوں میں انصاراللہ کے حملوں میں شدت پیدا ہوئي ہے۔ اسی زمانے میں یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ جنوبی علاقوں سے پسپائی کا ایک مقصد شمالی علاقوں پر توجہ مرکوز کرنا اور سعودی عرب کی سرزمین میں داخل ہو کر حملے کرنا ہے۔ تحریک انصاراللہ کے مجاہدین کی جانب سے سعودی عرب کے جنوبی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے پر توجہ دیئے جانے سے جہاں سعودی عرب کی فوجی کمزوری ماضی کی نسبت زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے اور آل سعود کے لئے ایک بڑی شکست شمار ہوتی ہے وہیں اس کیس کے نمایاں ہونے کا بھی باعث بنی ہے جسے سعودی عرب نے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی اور کسی حد تک یہ مسئلہ فراموش بھی ہو چکا تھا۔
نجران، جیزان اور عسیر یمن کی سرزمین کا حصہ تھے اور سعودی عرب نے سنہ انیس سو چونتیس میں لشکر کشی کرکے ان علاقوں پر قبضہ اوران علاقوں کو اپنی سر زمین میں شامل کر لیا تھا۔ اس زمانے سے اب تک یمن کی کوئي بھی حکومت ان علاقوں کو سعودی عرب کے قبضے سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ لیکن انصاراللہ کے حملوں کی وجہ سے ان علاقوں کی آزادی کا معاملہ ایک بار پھر رائے عامہ کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔لبنان سے شائع ہونے والے روزنامے الاخبار نے اسی مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب کا سب سے بڑا جیوپولیٹیکل نقصان یمن کے مذکورہ صوبوں کے قبضے سے متعلق مقدمے کے احیا سے عبارت ہے۔ دریں اثنا تحریک انصاراللہ کے ایک ناقد یمنی سیاسی مبصر ہیکل بافنع نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ میں لکھا ہے: "سعودی عرب کے لئے حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔ دنیا ایک ایسے مسئلے سے آگاہ ہونے جا رہی ہے جس کو سعودی عرب کے حکام اب تک چھپائے ہوئے تھے۔ وہ یہ کہ جیزان، عسیر اور نجران میں سعودی حکومت کو اغیار سمجھا جاتا ہے۔"
سعودی عرب کے جنوبی علاقوں میں تحریک انصاراللہ اور عوامی رضا کار فورس کے اہلکاروں کی پیش قدمی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ان مقبوضہ علاقوں کے اکثر باشندے یمنی قبیلوں نیز زیدی اور اسماعیلی فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ منظر عام پر آنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ قبائل تحریک انصاراللہ کا ساتھ دے رہے ہیں اور انہوں نے یمن پر سعودی عرب کی جارحیت شروع ہونے کے بعد جازان، نجران اور عسیر صوبوں کی آزادی کے لئےایک عوامی تحریک شروع کر دی تھی۔ ہیکل بافنع نے سعودی عرب کی بریگیڈ اٹھارہ کے کمانڈر کی ہلاکت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہےکہ جہاں تک میں جانتا ہوں یمنی نژاد یہ مقامی باشندے پہلی بار یمن کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جا ملے ہیں۔ دریں اثنا یمن کے صدارتی گارڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آپ لوگ بہت جلد نجران پر حملے کے دوران یمن کی سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی کامیابی کی ایسی خبریں سنیں گے جن سے دنیا والے حیران رہ جائیں گے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ انصاراللہ یمن کے شمالی مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے سلسلے میں پر عزم ہے اور ان علاقوں کی آزادی یقینا آل سعود پر ایک کاری ضرب ہوگی۔