الوقت- تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا مقابلہ کرنے کی علاقائي پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے ترکی نے بھی داعش کے تعلق سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرکے داعش مخالف اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ا سکے بعد امریکہ نے ترکی کے ساتھ شام کے سرحدی علاقوں میں نو فلائي زون قائم کرنے کی انقرہ کے مطالبے کے بارے میں اس سے مذاکرات شروع کردئے ہیں۔ ترک حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی کرد گروہوں کے لئے خواہ وہ ترکی میں ہوں یا شام میں خوش آئند نہیں رہی ہے کیونکہ ترک حکومت کے طیاروں نے عراقی کردستان کے علاقوں میں پی کےکے گروہ کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ ترک طیاروں کی بمباری سے کرد گروہ بحران میں مبتلا ہوگئے ہیں جبکہ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ترک حکومت اپنی پالیسی میں تبدیلی لا کر کن اھداف کے حصول کی کوشش کررہی ہے۔
دراصل داعش کی پیدائش اور اس کے ایک خونخوار گروہ بن کر سامنے آنے تک انقرہ نے داعش کے تعلق سے دفاعی پالیسیاں اپنا رکھی تھیں۔ بیس جون کو سوروچ شہر میں داعش کی دہشتگردانہ کاروائي کے بعد انقرہ نے داعش کےخلاف فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔سوروچ میں داعش کی دہشتگردی میں کم از کم بتیس افراد مارے گئے تھے۔ حکومت انقرہ کے مخالف دھڑوں بالخصوص پی کےکے پارٹی نے الزام لگایا ہےکہ اردغان کی پارٹی کی حکومت نے یہ حملے اپنی پالیسیاں بدلنے کی غرض سے کئے ہیں۔ ترک حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ ترکی نے داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے نیز امریکہ کو اپنے ایک فوجی اڈے کے استعمال کی اجازت دے کر داعش کے خلاف جاری نام نہاد جنگ میں ایک نیا محاذ کھولا ہے حالانکہ یہ کہا جارہا ہے کہ ترکی کے حملوں کا اصلی ہدف پی کےکے گروہ ہے۔ اس بنا پر ایسا لگتا ہے کہ اس حملوں اور اپنی پالیسی میں تبدیلیوں سے ترکی کا ھدف ایک تیر سے کئي شکار کرنا ہے۔
اردوغان کی حکومت نے عالمی اور داخلی سطح پر ہونے والے اعتراضات کو کم کرنے کی غرض سے جن میں ترکی کو داعش کا حامی قرار دیاجاتا ہے داعش مخالف نام نہاد اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ترک حکام کے مطابق یہ اقدام ان کی حکومت کی ساکھ کسی حدتک سدھار سکتا ہے۔ قابل ذکرہے کہ انقرہ کی حکومت نے یہ خبر بھی دی ہےکہ انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان ہوا ہے جس کی رو سے امریکہ کو داعش پر حملوں کے لئے ترکی کے انجرلیک ایر بیس کو استعمال کرنے کی اجازت ہوگي۔ انجیرلیک ایر بیس ترکی کے جنوب میں واقع ہے۔ ترکی نے اپنے بنیادی اتحادی امریکہ کو یہ سہولت دے کر کسی حدتک اسے منانے میں کامیابی حاصل کی ہے اس کے علاوہ ترکی کے اس اقدام سے یہ امید بھی بڑھ گئي ہےکہ داعش کے خلاف نام نہاد اتحاد میں شامل ممالک تیزی سے داعش پر حملے کرسکتے ہیں۔
اردوغان حکومت داعش مخالف اتحاد میں شامل ہوکر اور داعش کے حلاف حملے کرکے داخلی سطح پر جاری مخالفت اور ناراضگي کو ختم کرنا چاہتی ہے بلکہ داخلی فضا کو اپنے حق میں موڑنا چاہتی ہے۔ انصاف اور ترقی پارٹی داعش کےخلاف اعلان جنگ کرکے ممکنہ طور پر قبل از وقت ہونے والے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اگر ممکن ہوا تو ترک نیشنلٹ پارٹیوں کی حمایت حاصل کرکے حکومت تشکیل دیناچاہتی ہے۔ اس کے علاوہ اردوغان کی پارٹی عوامی جمہوری پارٹی کو کمزور بناکر اسے اقتدار سے کنارے لگانا چاہتی ہے۔ دمیر تاش کا کہنا ہےکہ ان کی پارٹی پر پابندی لگانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ اب اگر عوامی جہموری پارٹی براہ راست یا بالواسطہ طریقے سے پی کےکے کی حمایت کرتی ہے تو اسکے حامیوں کی تعداد میں کمی ہوجائے گي اور اس پر پابندی لگائے جانے کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔ اردوغان کی پارٹی نے اپنے اس پلان پر عمل کرتے ہوئے پی کےکے اور داعش کی حمایت کے شبہے میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔گرفتار ہونے والوں میں اکثریت عوامی جمہوری پارٹی کے کارکنوں کی ہے۔اردوغان کی حکومت ان اقدامات کے ساتھ ساتھ شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری بھی کررہی ہے۔ ان امور کے علاوہ ترک حکومت قیام امن کے عمل پر پوری طرح سے اپنی بالا دستی قائم کرنا چاہتی ہے۔ یاد رہے ترک وزیر اعظم داود اوغلو نے اعلان کیاہے کہ قیام امن کا عمل بدستور جاری ہے اور جو لوگ ترکی میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں یہ ان کے لئے وارننگ ہے۔ اردوغان کی پارٹی پی کےکے پر وقتی طور حملے کرکے نیز نیشنلسٹ حلقوں کو اپنے اعتماد میں لے کر اور کردوں کو کمزور کرکے کردوں کو اپنی شرطین تسلیم کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے تا کہ وہ انقرہ کے مد نظر امن معاہدہ پر راضی ہوجائيں۔