پاکستان میں جمعیت علماء اسلام سمیع الحق شاخ کےسربراہ اور دارلعلوم حقانیہ کے مہتمم مولانا سمیع الحق نے طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے۔ مولانا سمیع الحق کے ہمراہ ان کے مدرسے کے دیگر افراد بھی شامل تھے۔ سمیع الحق کو پاکستان میں طالبان کے کا بانی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے دارالعلوم حقانیہ میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر طالبان کے ہزاروں حامیوں کے اجتماع میں ملا اختر منصور کے ہاتھوں پر بیعت کرنے کا اعلان کیا۔ مولانا سمیع الحق کا مدرسہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ہے۔
طالبان کے سابق سربراہ ملا محمد عمر کی موت کے بعد ملا احتر محمد منصور کو ملا عمر کا جانیشن بنایا گيا تھا۔ بعض رپورٹوں کےمطابق الوقت- طالبان میں ملا اختر منصور کے طالبان کے سربراہ بننے پر شدید اختلافات سامنے آگئے ہیں، البتہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان اختلافات میں کچھ کمی بھی آئي ہے۔ افغانستان کے مختلف صوبوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شہروں کراچی، پیشاور ہری پور، کوئٹہ اور دیگر شہروں بااثر شخصیتوں، اور افغاں عمائدین نے طالبان کے سابق سربراہ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کےبعد نئے لیڈر ملا اختر محمد منصور کے ہاتھوں پر بیعت کرنے کا اعلان کیا۔ مختلف دھڑوں کی جانب سے بعیت کا اعلان ایسے عالم میں کیا گيا ہے جبکہ حقانی دہشتگرد نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی اور ان کے خاندان، یونس خالص بابا، مولوی محمد نبی محمدی اور ان کا خاندان اور نصراللہ منصور کے اھل خانہ اور قوم کے افراد مارے جاچکے ہیں۔ گذشتہ ہفتے طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کی موت کی خبر نشر ہوئي تھی۔ اس کے بعد افغانستان کی حکومت اور قومی سلامتی کونسل نیز ملاعمر کے خاندان اور طالبان نے اس خبر کی تصدیق کی تھی۔
واقعات کا تجزیہ
سیمع الحق کو تین برس قبل دفاع پاکستان کونسل کا سربراہ بنایا گيا تھا۔ یہ عھدہ سیمع الحق کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئي ایس آئي کے کہنے پر دیا گيا تھا۔ اس کونسل کی ایک بنیادی ذمہ داری امریکہ اور نیٹو کی سپلائی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا تھا۔ یہ کاروان کراچی سے افغانستان جاتے تھے۔ اس کونسل نے اپنے بعض ارکان جیسے آئي ایس آئي کے سابق سربراہ جنرل حمید گل اور کرنل امام اور طالبان کے زمانے میں ہرات میں پاکستان کے قونصل جنرل جو حال ہی میں انتقال کرگئے اور الدعوۃ پارٹی کے سربراہ حافظ محمد سعید جو ممبئی دہشتگردانہ حملوں کے صف اول کے ملزم ہیں ان کے سہارے نیٹو اور امریکہ کے ایندھن کے ٹینکروں پر حملے کرواتی تھی۔ ان مسائل کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہےکہ سمیع الحق کا طالبان کے نئے سرغنے کی بیعت کرنا طالبان پر آئي ایس آئي کی گرفت کی نشاندھی کرتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ سمیع الحق کا ملا اختر منصور کی بیعت کرنےسے ملا اختر کو مکمل طرح سے پاکستان کی حمایت حاصل ہوجائے گي۔ دوسری طرف سمیع الحق حقانی دہشتگرد گروہ کے سرغنے کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے لھذا سمیع الحق کی بیعت کو حقانی نیٹ ورک کی جانب سے ملا اختر منصور کی بیعت بھی سمجھنا چاہیے۔ اسی بنا پر ہمیں آئندہ دنوں میں حقانی نیٹ ورک اور ملا اختر منصور کے مشترکہ اقدامات کا منتظر بھی رہنا چاہیے۔ حقانی دہشتگرد نیٹ ورک اور ملا اختر کے طالبان کے درمیان اتحاد سے افغانستان میں کافی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ یہ لوگ مل کر افغانستان کی حکومت کے لئے شدید مسائل کھڑی کرسکتے ہیں۔ اس وقت افغانستان کے تعلق سے جس چیز پر توجہ رکھنی چاہیے وہ امریکہ کی اسٹراٹیجی میں تبدیلی ہے۔ گيارہ ستمبر کے بعد بالخصوص حامد کرزئي کی حکومت کے زمانے میں امریکہ کو افغانستان میں پاکستان کی چندان ضرورت محسوس نہیں ہوئي تھی اور امریکہ نے پاکستانی فوج اور آئي ایس آئي کی اطلاع کے بغیر پاکستان کے ایک شہر ایبٹ آباد میں گھس کر اسامہ بن لادن کو گرفتار کیا اور اسے نامعلوم مقام پر منتقل کرکے بظاہر قتل کردیا۔ اس وقت امریکہ پاکستانی فوج کے ساتھ قریبی تعاون کررہا ہے اور اس نے پاک فوج کو یہ اجازت دیدی ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حمایت کرسکتی ہے ا سی وجہ سے پاکستان کی آئي ایس آئي نے افغانستان میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے مفادات فراہم کرنے کےلئے مداخلت شروع کردی ہے۔ یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ جب بھی پاکستان نے افغانستان میں مداخلت کی ہے افغانستان متعدد بحرانوں سے دوچار ہوا ہے اوراب یہ سیکورٹی بحران نہ صرف افغانستان بلکہ مرکزی ایشیا تک بھی پھیل جائےگا۔