الوقت کی رپورٹ کے مطابق کالعدم دھشتگرد تنظیم کے سربراہ ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں عثمان اور حق نواز کو ہتھیاروں کی نشاندہی کے لیے مظفرگڑھ لے جایا گیا، جہاں پولیس نے ایک مکان پر چھاپہ مارا جس پر دہشت گردوں اور اشتہاریوں نے پولیس پر فائرنگ کردی۔
فائرنگ کے تبادلے میں چھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
دھشتگرد ملک اسحاق اور ان کے دونوں بیٹوں کو ایک ہفتہ قبل کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (ای ٹی ڈی) نے گرفتار کیا تھا۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک اسحاق کو فرار کرنے کے لیے12 سے 15 مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر آئے اور گاڑی پر حملہ کیا مگر اس دوران مبینہ مقابلہ ہوا جس میں تمام افراد ہلاک ہوئے جبکہ 6 اہلکار زخمی ہو گئے۔
سی ٹی ڈی کے ترجمان نے بتایا کہ تمام افراد کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوہ سے تھا اور ان کو اسلحہ برآمد کرنے کے لیے مظفر گڑھ لے جایا گیا تھا۔ہلاکتوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کالعدم لشکر جھنگوی کے14 دھشتگرد مقابلے میں مارے گئے جن میں ملک اسحاق، ان کا نائب غلام رسول شاہ اور دیگر حملہ آور بھی شامل تھے۔
خیال رہے کہ لشکر جھنگوی کو پاکستان کے فرقہ وارانہ طور کو سب سے متشدد تنظیموں میں شمار کیا جاتا تھا جس پر 90 کے عشرے میں دیگر فرقوں خاص طور سے شیعہ مسلمانوں کے افراد کو قتل کرنے کے الزامات ہیں۔
لشکر جھنگوی کا تعلق عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ سے بھی ہے۔
کالعدم لشکر جھنگوی کے دھشتگرد ملک اسحاق پر قتل کے متعدد مقدمات تھے، ان کو 1997 میں مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا البتہ 14 سال جیل میں رہنے کے بعد 2011 میں جیل سے رہا ہوا
2013 میں کوئٹہ میں شیعہ مسلمانوں پرہونے والے حملوں کے بعد ان کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا۔اس حملے میں ایک سو کے قریب شیعہ مسلمان شھید اوردو سو کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ سن انیس سو نوے میں لاہور میں ایران کے خانہ فرہنگ کے ڈائریکٹر صادق گنجی کے قتل میںبھی ملوث رہا ہے۔
ملک اسحاق کو مبینہ طور پر سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کا ماسٹر مائنڈ مانا جاتا ہے۔
ملک اسحاق کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی روابط تھے اور کئی بار وہ سعودی عرب گئے۔