الوقت- کیا پاکستان میں دہشتگردوں کے خلاف سنجیدہ آپریشن ہو رہا ہے یا پاکستانی فوج کی طرف سےآئی ایس آئی پر مذہبی دہشتگردوں کی حمایت کا الزام دھونے کے لئے بظاہر یہ ڈرامہ رچایا جارہا ہے اور حقیقت میں صرف ان جنگجوؤں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے جو خود سری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اس خفیہ ادارے کی ڈکٹیشن قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ بہادر بھی پاکستان پر بھر پور دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ افغان طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر راضی کر ے اس حوالے سے کچھ پیش رفت بھی نظر آرہی ہے دوسری طرف متحدہ قومی موومینٹ کے قائد کی طرف سے بھوک ہڑتال اور اقوام متحدہ میں شکایت کی دھمکیوں کے بعد ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان کشیدگی میں مذید اضافہ ہوگیا ہے ۔پاکستان کی سیکوریٹی فورسز نے حال ہی میں دوسری بار ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مار کراس جماعت کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے۔ایم کیو ایم نے سیکوریٹی فورسز کی اس کاروائی کے بعد اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت کی طرف سے ان رہنماؤں کے رہائی کے لئے حکومت سے کوئی درخواست نہیں کی جائیگی اور حکومت کے ان اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ سے رجوع کیا جائیگا۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا مذید کہنا تھا سیکوریٹی فورسز نے انکے رفاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن کو فطرے اور زکوات کے عطیات لینے سے بھی روکا ہے ۔یاد رہے پاکستان کی سیکوریٹی فورسز نے چند دن پہلے ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپہ مار کے ان کے دو مرکزی رہنماؤں کیف الورا اور قمر منصور کو گرفتار کرلیا تھا۔پاکستانی رینجرز نے اس سے پہلے بھی ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ مارا تھا جس میں سرکاری اعلان کے مطابق سیکوریٹی اداروں نے نہ صرف بڑی مقدار میں غیر ملکی کرنسی اور اسلحہ برآمد کیا تھا بلکہ اس مرکزی دفتر میں روپوش ایسے افراد کو بھی گرفتار کیا جن پر قتل ۔اغوا سمیت کئی سنگین مقدمات قائم تھے اور یہ افراد کئی مقدمات میں حکومت کو مطلوب بھی تھے۔
نواز شریف کی موجودہ حکومت سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس کے ایم کیو ایم سے اچھے تعلقات تھے اور یہ وفاقی حکومت کے اتحادی تھے لیکن وفاق میں مسلم لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد ایم کیو ایم اور وفاقی حکومت کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔پاکستان کی موجودہ وفاقی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے اہم اقتصادی شہر کراچی کی ناامنی،پرتشدد واقعات سمیت چوری ،ڈکیتی اور دوسری غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے ۔حکومت کے اس موقف کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ گذشتہ دوسالوں میں سیکوریٹی کی سخت وارننگ کے باوجود کراچی میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے ۔پاکستانی فوج کی طرف سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریشن اس بات کا باعث بنا کہ دہشتگرد مہاجرین کے بھیس میں فرار کرکے کراچی پہنچےجہاں انہوں نے دوسرے شرپسندوں اور دہشتگردوں کے ساتھ اتحاد کرلیا۔حکومت پاکستان کا یہ نظریہ ہے کہ ایم کیو ان جماعتوں میں سے ایک ہے جنہوں نے ان دہشتگردوں کا استقبال کرتے ہوئے ان کی مدد سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں مذید شدت لائی ہے۔
کراچی پاکستان کا انتہائی اہم اور تجارتی مرکز ہے اور اس میں امن و امان کی بحالی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیکوریٹی فورسز نے کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کررکھا اور اس میں ایم کیو ایم سےوابستہ افراد بھی سیکورٹی فورسز کا نشانہ بن رہے ہیں ۔سیکورٹی فورسز کی طرف سے دہشتگردوں کی تلاش کے لئے ایم کیو ایم کے دفاتر پر بھی چھاپے پڑ رہے ہیں اور وہاں سے بڑی مقدار میں ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں جسکی وجہ سے ایم کیو ایم کی قیادت پر دباؤ بڑھ رہا ہے ۔دوسری طرف پاکستان میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ بعض تنظیمیں عوام سے زکواۃ ، فطرہ اور دیگر عطیات لیکر اس سرمائے کو تخریبی سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ایسی تنظیموں اور اداروں جن پر دہشتگردی اور تخریبی کاروائیاں انجام دینے کا الزام ہے ان پر عطیات لینے پر پابندی عائد کررکھی ہے ۔بہرحال حکومت پاکستان کو اس بات کی امید ہے کہ وہ قوم پرست اور فرقہ ورانہ تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات کرکے کراچی میں امن و امان کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنے اقتصادی پروگرام کو آگئے بڑھانے میں کامیاب ہوجائيگی۔بہرحال ایم کیو ایم کے قائد اس سے پہلے بھی کئی بار قیادت سے علیحدگی اور فوج کے خلاف بیان دے چکے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ بڑی آسانی سے اپنے بیان کو واپس بھی لے لیتے ہیں اور اس پر معذرت بھی کرلیتے ہیں اس بار دیکھنا ہے کہ وہ بھوک ہڑتال کے بیان پر قائم رہتے ہیں یا پہلے کی طرح یو ٹرن لیتے ہوئے اپنے بیان کو واپس لینے کا اعلان کرتے ہیں۔