الوقت- داعش گروہ نے جب اپنا کام عراق سے شروع کیا تو اس وقت یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ داعش کو کس نے جنم دیا ہے، میڈیا میں اس بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈہ بہت زیادہ رہا- ان کا کہنا تھا کہ جب قطیف کے القدیح علاقے میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا اور اس کے بعد ایک دوسری مسجد پر اسی طرح کا حملہ ہوا نیز کچھ بہادر نوجوانوں نے حملہ آور کو روکا تو خلیج فارس کے بعض ذرائع ابلاغ نے الزام لگایا کہ ایران داعش کی پشت پناہی کر رہا ہے- بعض کا کہنا ہے کہ بشار اسد نے داعش کو بنایا ہے لیکن شام کے مشرقی علاقوں دیرالزور اور حسکہ کے کچھ حصوں پر تو داعش کا کنٹرول ہے- بعض یہ کہتے ہیں کہ داعش کی تشکیل کا نظریہ حزب اللہ کا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جبہۃ النصرہ اور دیگر مسلح گروہوں کو شکست دی جا سکے جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ القاعدہ کو کس نے جنم دیا، امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے القاعدہ کو جنم دیا اور اس کے ثبوت بہت سی کتابوں میں بھی موجود ہیں اور القاعدہ کا ہی دوسرا نام داعش ہے- عجیب بات یہ ہے کہ آج حقیقت میں داعش کا کون مقابلہ کر رہا ہے، داعش کا مقابلہ وہی کر رہے ہیں جن پر داعش کی حمایت کا الزام لگایا جاتا ہے یعنی اسلامی جمہوریہ ایران ، عراق،شام اور حزب اللہ ۔بعض ممالک کے پاس تیل اور گیس ہے اور اس کے پیسے سے وہ داعش کی بھرپور مدد کر رہے ہیں اور کچھ دیگر ممالک اپنی سرحدیں کھول کر داعش کی مدد کر رہے ہیں، یہی داعش کے اصل حامی ہیں-داعش تکفیری دہشت گردوں نے کویت اور سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کی مسجدوں پر حملے کے بعد اب پورے جزیرہ نمائے عرب میں شیعوں پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی نیوز ویب سائٹ چوبیس کی رپورٹ کے مطابق داعش دہشت گرد گروہ نے ایک ویڈیو پیغام میں اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب اور کویت میں مسجدوں میں شیعوں پر حملے کے بعد خلیج فارس کے جنوبی ساحلوں پر واقع تمام ممالک میں شیعوں پر حملے تیز کردیئے جائيں گے۔ داعش نے اپنے پیغام میں سعودی عرب اور کویت میں مسجدوں پر دہشتگردانہ حملوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تکفیری وہابیوں کو عرب ممالک میں شیعوں کا قتل عام کرنےکی دعوت دی ہے۔
داعش کے رکن ایک سعودی دہشت گرد نے جمعہ چھبیس جون کو کویت کے صوابر علاقے کی مسجد امام صادق (ع) ميں خود کش دھماکا کیا جس کے نتیجے میں ستائیس نمازي شہید اور دوسو ستائیس زخمی ہوگئے تھے۔
اس سے قبل سعودی عرب کے الشرقیہ علاقے کی مسجد امام علی (ع) میں بھی داعش دہشت گردوں کے حملے میں بائیس نمازی شہید اور سو زخمی ہوگئے تھے۔
سعودی عرب اور کویت میں شیعہ مسلمانوں کی مسجدوں میں حملے کی ذمہ داری داعش دہشت گردگروہ کی جانب سے قبول کئے جانے کے باوجود ابھی تک ان ملکوں کے سیکورٹی حکام نے اس طرح کے جرائم کی روک تھام کے لئے کوئی عملی اقدام نہيں کیا ہے جس کے باعث نہ صرف شعیوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے بلکہ دہشت گردوں میں شیعوں کے خلاف جرائم انجام دینے کی ہمت بھی بڑھ گئی ہے۔ شیعہ شہریوں کے خلاف داعش دہشت گردوں کے جرائم کے سلسلے میں سعودی عرب جیسے ممالک کی جانب سے ایسے عالم میں کوئی اقدام نہيں کیا جا رہا ہے کہ علاقے کے شیعوں پر دہشت گردانہ حملوں پر عالمی برادری بھی ردعمل ظاہر کر رہی ہے اور احتجاج کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کچھ دنوں قبل ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس کا مقصد مشرق وسطی میں اختلافات اور بحران کو ھوا دینا بتایا ہے۔ بان کی مون نے دہشت گرد گروہوں کے خطرات کا مقابلہ کرنے لئے عالمی برادری کے تعاون پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان جرائم پر خاموشی نے عالمی برادری کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
سعودی اور کویتی شیعہ شہریوں کے خلاف دہشت گردوں کے جرائم کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردانہ اقدامات، جیسا کہ علاقے کی مذہبی اور سیاسی شخصیات پہلے ہی خبردار کر چکی ہیں، آخرکار عراق اور شام جیسے ممالک سے آگے بڑہ کر پورے علاقے بالخصوص ان کے حامیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
درحقیقت دہشت گردوں کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت بند کرنا، مختلف ممالک میں مسلح عناصر کی رفت و آمد روکنا، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں حکومتوں اور عالمی برادری کا بھرپور عزم ہی دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ بند ہونے اور علاقے میں داعش دہشت گردوں کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا واحد راستہ ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو داعش کے جانے پہچانے حامی بھی محفوظ نہيں رہیں گے جسکی تازہ مثال ترکی میں ہونے والے تازہ دھماکے ہیں جن میں بیسیوں افراد مارے گئے ہیں۔سعودی عرب میں بھی داعش کے ایک دھڑے کی سرگرمیاں اتنی خودسرانہ ہوگئی تھیں کہ سعودی حکام کو ان کے خلاف باقاعدہ کاروائی کرنا پڑی۔