الوقت- پاکستان میں طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کی خبر سامنے آنے پر طالبان کے ترجمان نے پہلے تو یہ کہا کہ وہ نہ اسکی تردید کرتے ہین اور نہ ہی تائید لیکن بعد میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اسلام آباد میں ہونے والی نشست کے بارے میں کہا ہے کہ جو افراد طالبان گروہ کی نمائندگی کر رہے تھے ان کا تعلق افغان طالبان سے نہیں ہے، لہذا اس نشست میں کئے گئے فیصلے، اس گروہ کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔قابل زکر ہے کہ پاکستان کے شہر مری میں ہونے والے ان مذاکرات میں امریکہ اور چین کے نمائندگان بھی شامل ہیں۔پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ طالبان گروہ کے سینیئر ارکان اور افغان حکومت کے وفد کے درمیان مذاکرات کا پہلامرحلہ، پاکستان کے شہر مری میں انجام پایا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے ان مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات آگے کی جانب بڑھایا جانے والا ایک اہم قدم ہے۔ قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستان کے نائب وزیر خارجہ احمد چودھری نے ان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کیا اور مذاکرات کے دوران قیام امن اور آشتی کے طور طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا اور دونوں فریق نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس سلسلے کو نیک نیتی اور ذمہ داری کے ساتھ جاری رکھا جائےگا۔ عالمی برادری، اقوام متحدہ، امریکہ اور چین نے بھی ان مذاکرات کا خیرمقدم کیا اور اس سلسلے میں اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں حکومت افغانستان اورطالبان کے وفد کے مابین مذاکرات ایسے میں ہوئے ہیں کہ افغانستان کو اس وقت امن و صلح اور قومی اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ اس لئے کہ افغانستان میں داعش کی کارروائیوں کے بعد اس ملک میں بد امنی اور کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے داعش دھشتگرد گروہ نے نہ فقط حکومت بلکہ طالبان کے خلاف بھی سخت رد عمل دکھایا ہے۔ افغانستان میں داعش کی کارروائیاں اس حوالے سے بھی تشویشناک ہیں کہ اغیار اور بعض عرب ممالک کے سرمائے اور اسی طرح داعش کی جانب سے عراق کے بعض علاقوں سے تیل کی آمدنی سے حاصل ہونے والے ڈالروں سے طالبان کو لالچ دے کر داعش میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اوراس قسم کی صورتحال نہ فقط طالبان کے حق میں نہیں ہے بلکہ یہ افغانستان کو خانہ جنگی کی سمت لے جائے گی جس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔ بہرحال یوں دکھائی دیتا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان نے ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر اور قومی اتحاد و وحدت کو مستحکم کرنے کے مقصد سے مذاکرات شروع کئے تا کہ اس طریقے سے کسی مثبت نتیجے پر پہنچ کر دھشتگرد گروہ داعش کی جانب سے افراد کو جذب کرنے کی روک تھام کر سکیں۔
افغان حکومت کے وفد کی قیادت کرنے والے نائب وزیر خارجہ خلیل حکمت کرزئی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مذاکرات کرنے والے وفد میں کوئٹہ شورا(کونسل) اور حقانی گروہ کے افراد شامل ہیں جس سے دکھائی دیتا ہے کہ ہونے والے مذاکرات میں حکمتیار گروپ کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا اور اس کی توقع بھی کی جارہی تھی اس لئے کہ گلبدین حکمتیار کی جماعت حزب اسلامی نے چند روز قبل داعش کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔اس رو سے طالبان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کرنے والے افغان وفد کے نظریہ کے مطابق اگر چہ مذاکرات نہایت اہم اور افغانستان کے حالات کیلئے ایک نیا باب ہیں تاہم مذاکرات میں طالبان کے تمام دھڑوں کی عدم شرکت کی وجہ سے امن مذاکرات کا آغاز اس ملک میں جنگ کے خاتمے کے معنی میں نہیں ہے۔پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
مذاکرات کے دونوں فریقوں نے ماہ رمضان کے بعد گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔ ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے ان مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات آگے کی جانب بڑھایا جانا ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات اپنی نوعیت کا پہلا اہم قدم ہے۔ قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستان کے نائب وزیر خارجہ احمد چودھری، ان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کریں گے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مذاکرات کے دوران قیام امن اور آشتی کے طور و طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا اور دونوں فریق نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ سلسلہ صداقت اور ذمہ داری کے ساتھ جاری رکھا جائے گا۔ عالمی برادری، اقوام متحدہ، امریکہ اور چین نے بھی ان مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ادھر اسلام آباد سے روانگی کے بعد، افغان حکومت کے وفد نے کہا ہے کہ امن مذاکرات کا مطلب ملک میں جنگی کاروائی کا خاتمہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغان حکومت اور طالبان گروہ کے مابین براہ راست مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بیان جاری کرکے امن و امان، جمہوریت اور ترقی کی راہ میں افغانستان کی کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے علاوہ، افغانستان کے سیاسی حلقوں اور عالمی برادری نے بھی افغان حکومت کے وفد اور طالبان گروہ کے نمائندوں کی مشترکہ نشست کا خیر مقدم کیا ہے۔ افغان حکومت اور عوام نے ان مذاکرات کو قیام امن کی راہ میں پہلا قدم قرار دیا ہے۔ پاکستان،امریکہ،چین اور حتی اقوام متحدہ کی طرف سے مذاکرات کی حمایت کے باوجود بہت سے تجزیہ کاروں بالخصوص وحید مژدہ کا کہنا ہے کہ حالیہ مذاکرات پاکستان کے لئے ایک کسوٹی اور انکی اصلی پالیسی کا اظہار ہونگے کیونکہ اگر طالبان کیطرف سے حملوں کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے تو اس سے ثابت ہوگا کہ پاکستان ان مداکرات میں مخلص ہے اور جو لوگ مذاکرات کی میز پر موجود ہیں وہ حقیقی طالبان ہیں اور اگر مذاکرات کے نتیجے میں طالبان کے رویے میں تبدیلی نہین آتی تو اس سے یہی سمجھا جائیگا کہ حکومت پاکستان نے افغان حکومت کو فریب دیا ہے۔