الوقت- شہر قدس جو الہی ادیان کا تاریخی مرکز ومحور گہوارہ رہا ہے اورجس کے بارے میں ہر فلسطینی کی خواہش ہے کہ یہ شہر ان کی حکومت اور ملک کا دارالخلافہ بنے اس وقت کس کیفیت کا شکار ہے اور آج جبکہ دنیا بھر مین یوم القدس منایا جارہا ہے اس شہر پر کیا بیت رہی ہے ۔شہر قدس کی تاریخ۔1947 میں اقوام متحدہ کے منصوبے کے تحت قدس یا بیت المقدس کو ایک عالمی علاقہ قرار دیکر اسے یہودی اور عربی تسلط سے آذاد ایک شہر قرار دیا گیاتھا لیکن ایک سال بعد غاصب صیہونیوں نے امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد سے چند ماہ کی جنگ کے بعد اس پے قبضہ کرلیااور قدس کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔صیہونیوں نے مغربی قدس کو اپنا دارالحکومت قرار دے کر اس میں اپنے حکومتی مراکز اور پارلیمنٹ کنسٹ کو اس حصے میں منتقل کردیا۔حکومتی مراکز کے ساتھ محتلف ممالک کے سفارتخانوں کو بھی تل ابیب سے یہاں منتقل کرنے کی کوشش کی لیکن اس مین انہین خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوئی۔1967 کے چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے غرب اردن ،غزہ پٹی پر قبضہ کرلیا اور مشرقی اور مغربی قدس کو ایک کرکے اس پر اپنا مکمل تسلط جما لیا اور اسکے بعدگریٹر قدس کا منصوبہ سامنے آیا اور اس شہر میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوگیا جو اب تک تمام تر مخالفتون کے زور و شور سے جاری ہے اور اب تک اس شہر میں پانچ لاکھ صیہونیوں کو بسایا جاچکا ہے۔اس وقت اسرائیل کی دائیں اور بائیں بازو کی دونوں سیاسی جماعتیں قدس کو اسرائیل کا کیپٹل بنانے پر متفق ہیں ۔
یوم القدس کی تاریخ پر روشنی ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کس اصل بانی امام خمینی ہیں۔حضرت امام خمینی قدس سرہ الشریف نے فرمایا تھا قدس کا دن ایک عالمی دن ہے،ایسا دن نہیں جو صرف قدس سے مخصوص ہو، مستکبرین سے مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعفین کو مسلح ہونا چاہئے تاکہ استکبار کی ناک زمین پر رگڑ دیں ۔ یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعف قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ہو اور مستکبرین کے مقابلے میں مستضعف قومیں اپنے وجود کا اعلان کریں ۔امام خمینی (رح) نے اسی ابتدا سے ہی اسلامی تشخص اور اسرائیل کے ساتھ جہاد کے اعتقادی پہلو کو، فلسطین کے مظلوم عوام کو آمادہ کرنے، اور پوری امت مسلمہ سے فلسطینوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ کارساز روش قرار دیا اور اس کے علاوہ نیشنلسٹ اور غیر اسلامی نظریات کو قدس کی آزادی کے لئے انحراف سے تعبیر کیا۔
فلسطین کے مسئلے پر حضرت امام خمینی (رح) کی تاکید عالم اسلام کے لئے اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ہے ۔ صہیونیزم کی فکر، دین یہود کی تعلیمات سے جدا ایک فکر، اور اس آسمانی دین سے منحرف ایک فرقہ ہے ۔ یہ فکر اور اس سے وجود ميں آنے والا اسرائیل، مسلمانوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے اور مشرق وسطی پر تسلط کے لئے،استعمار کا ساختہ پرداختہ ہے۔
حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہيں اسرائیل مغرب اور مشرق کی استعماری حکومتوں کی ہم آہنگي اور ہم فکری سے وجود ميں آیا اور آج اسے تمام استعماری طاقتوں کی حمایت و پشپناہی حاصل ہے ۔ برطانیہ اور امریکہ، اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں سے مسلح کرکے اور اسے فوجی اور سیاسی لحاظ سے مضبوط بنانے کے ذریعے مسلمانوں اور عربوں کے خلاف جارحانہ کاروائیاں انجام دینے پر اسے ورغلاتے رہتے ہیں ۔ صہیونی حکومت مسلمانوں ميں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کے ذریعے مشرق وسطی میں اپنی دائمی بقاء کے لئے ایک پرامن ٹھکانے کے درپے ہے ۔
اسرائیل نے اپنے وجود کے وقت سے ہی مشرق وسطی میں لڑاؤ حکومت کرو کی پالیسی اختیار رکھی ہے ۔ اسی لئے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشرق وسطی میں تکفیری گروہ کس طرح سے شام اورعراق میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا بدترین حالت میں قتل عام کررہے ہیں لیکن غاصب اور جارح اسرائیل کے خلاف کوئی موقف نہیں اپنا رہے ہيں ۔ یہ کیا اندھیر ہے کہ جو اسلامی احکام پر عملدرآمد کے مدعی ہیں وہی اسلام کے سب سے واضح اصول یعنی مسلمانوں اور مستضعفوں کی حمایت کو ذرا بھی اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ تمام چیزيں اس بات کی غماز ہیں کہ تکفیریوں کی جارحیت، عالمی استکبار اور صہیونی امنگوں سے ہم آہنگ ہے اور ان جارحانہ کاروائیوں کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے جبکہ بعض رپورٹوں اور خبروں سے تکفیری گروہوں اور صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ لیکن وہ چیز جو امت مسلمہ کے درمیان نا اتفاقی پیدا کرنے اور فلسطین پر قبضہ جاری رہنے کے لئے صہیونی حکومت کی سازشوں کو ملیا میٹ کردیتی ہے، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہے۔ لہذا یہ غاصب اور کھوکھلی حکومت اپنی طاقت کے مظاہرے کے لئے گاہے بگاہے بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں پر بموں اورمیزائیلوں کی بوچھار کردیتی ہے۔ یہ نا اہل اور ناجائز حکومت، بچوں اور مظلوموں کا خون بہا کر یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی ان وحشیانہ کاروائیوں سے مسلم قوموں اور مجاہدوں کے دلوں پر خوف و دہشت طاری کردے گي۔ لیکن جتنا زیادہ خون بہہ رہا ہے مزاحمتی حلقوں کے حوصلے اور بلند ہورہے ہیں اور مسلمانوں میں مزید اتحاد بڑھتا جارہا ہے ۔
امریکہ کے مشرق قریب کے تحقیقاتی مرکز نے "آخری زمانے میں اسرائیل" کے حوالے سے ایک رپورٹ ميں لکھا ہے کہ 2025 ميں اسرائيل کا وجود ختم ہوجائے گا ۔ اس لحاظ سے کہ مسلمانوں میں اتحاد ہی ، صہیونزم اور عالمی استکبار کے اہداف کے مقابلے میں کامیابی کا واحد راز ہے، امام خمینی (رح) نے اپنی سیاسی بصیرت کے ذریعے عالمی یوم القدس کا اعلان کردیا۔ ایک ایسا دن جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے مستحکم ہونے کا باعث بناہے۔
یوم القدس منانے کے نتائج اور فوائد
1- اس دن کے توسط سے تمام مسلمان اس بات کا اعلان کریں گے کہ مسلمانوں کا اصلی دشمن اسرائیل ہے اور تکفیری اور اس طرح کے دوسرے گروہ اس غاصب صیہونی حکومت کے آلہ کار ہیں۔
2- یوم القدس کے دن امت مسلمہ ایک بار پھر اس بات کو ثابت کرے گی کہ مشرق وسطی میں جاری حالیہ کشیدگی کے باوجود اب بھی اہم ترین مسئلہ فلسطین ہے اور امت مسلمہ اصلی دشمن کی پہچان میں غفلت سے کام نہین لے گی۔
3- تمام تر سامنے آنے والے معروضی اختلافات کے باوجود یوم القدس اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد و وحدت کی علامت ہے
4- صیہونیت کے خلاف عالمی تحریک میں ایران کا کردار اور نکھر کر سامنے آئے گا اور اس سے ایران کے اسلامی انقلاب کی امنگوں اور اہداف کے حصول اور اس پر تاکید کے حوالے سے ایران کی مسلسل کوششیں مذید نمایاں ہوکر سامنے آئیں گی۔
.