الوقت- یونان کے عوام نے ریفرینڈم میں شرکت کر کے آخر کار یورپی یونین اور قرض دینے والے اداروں سے اپنی مخالفت کا اعلان کر دیا ہے-ووٹوں کی گنتی کے مطابق اکسٹھ اعشاریہ چار فیصد رائے دہندگان نے "نہیں" کےحق میں ووٹ دے کر بیل آؤٹ کی پیشکش کو مسترد اور یورپی یونین سے اپنی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ یونان کی وزارت داخلہ کے اعلان کے مطابق اڑتیس اعشاریہ دو فیصد ووٹروں نے "ہاں" کے حق میں ووٹ دے کر یورپی یونین کے ساتھ اپنی موافقت کا اعلان کیا ہے۔
یونان کے حالیہ ریفرینڈم کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس ملک کی اکثریت نے یورپی یونین اور قرض دینے والوں کی شرائط کو مسترد کردیا ہےبیل آؤٹ پیکیج مسترد ہونے کی خوشی میں ہزاروں شہریوں نے دارالحکومت ایتھنز میں پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے سٹگما اسکوائر میں جمع ہو کر فتح کا جشن منایا۔ انہوں نے نعرے لگاتے ہوئے سخت اقتصادی شرائط، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اپنی مخالفت کا اعلان کیا۔
یونان کا مالی بحران یورپی یونین اور ایتھنز حکومت کی کے تقابل پر منتج ہوا ہے۔ یونان میں استصواب رائے نہ صرف یونانی عوام کے ٹروئيکا کی شرایط کے موافقین اور مخالفین میں بٹ جانے پر منتج ہوا ہے بلکہ عالمی سطح پر بہت سے ممالک بھی یونانی قوم کے فیصلے سے خوش نہیں ہے۔ اس صف آرائي میں مغربی بلاک نے یونان میں ہونے والے ریفرینڈم میں عوام کے فیصلے پر ناراضگي کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ ایتھنز کی حکومت کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرکے یورپی یونین کے ساتھ مصالحت کرنی چاہیے۔ واضح رہے یونان کی قوم نے ریفرینڈم میں مالیاتی اداروں اور یورپی یونین کی لگائي ہوئي کڑی شرطوں کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ نے بھی یونان کے ریفرینڈم کے نتیجے کے بارے میں منفی موقف اپنایا ہے۔ وائٹ ہاوس کے ترجمان جاش ارنسٹ نے یونانی عوام کے فیصلے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہےکہ یونان کی حکومت کو یورپی یونین کے ساتھ مصالحت کرنی چاہیے۔ وائٹ ہاوس کےترجمان نے یونانی عوام کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکومت اس بات پر بدستور یقین رکھتی ہے کہ یونانی حکومت کو یورپی یونین کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاہیے اور اپنی اقتصادی ترقی کے لئے نیز یورپی یونین کے قرضوں سے استفادہ کرنے کے لئے یورپی یونین کی پیش کردہ اصلاحات پر عمل کرنا چاہیے۔ یونان کے نئے حالات پر امریکہ کی تشویش کی کافی وجوہات ہیں۔ یونان میں ریفرینڈم کے نتائج کے اعلان کے بعد یورپی بازار حصص میں مندی آگئي اور امریکی تیل کی قیمتوں میں آٹھ فیصد کمی ہوگئی۔ایسا لگتا ہےکہ مغربی ملکوں کی پریشانیاں دو لحاظ سے ہیں۔ایک تو یورپی سطح پر مغربی ممالک تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ اگر یونانی قوم کا فیصلہ یونان کے یورو زون سے نکلنے کا سبب بن سکتا ہے، اسی وجہ سے یورپی یونین یونان کو منانے اور اس سے نئے نئے وعدے کررہی ہے تا اس طرح یونان کو یورپی یونین سے الگ ہونے سے روک سکے۔ اسی وجہ سے فرانس اور جرمنی کے سربراہوں نے مشترکہ بیان میں کہا ہےکہ یونان کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ مذاکرت کی میز پر واپس آسکتا ہے اور یورپی یونین کے ساتھ اپنے قرضوں کے سلسلے میں مذاکرات جاری رکھ سکتا ہے۔ ادھر یورپی یونین سے زیادہ امریکہ کو تشویش لاحق ہے۔ امریکہ کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر یونان ممکنہ طور پر یورو زون سے نکل جاتا ہے تو یورپ میں مالی اور اقتصادی عدم استحکام پھیل جائے گا اور اس سے عالمی معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے۔
یونان کے مسئلے پر روس، ارجنٹائن اور ونزوئيلا نے بھی خاص موقف اپنایا ہے۔ ان ممالک نے اعلانیہ طور پر یونانی قوم کی جانب سے ٹروئيکا کی شرایط کو مسترد کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے یونان کے وزیر اعظژ ایلکسیس سپراس سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے ریفرینڈم میں یونانی قوم کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ ایلکسیس سیپراس نے ریفرینڈم کے نتائج کے اعلان کے بعد قوم سے خطاب میں اسے قرضہ دینے والے ملکوں کی توسیع پسندی کے مقابل جمہوریت اور ملت یونان کی تاریخی کامیابی قرار دیا ہے۔ روس کے لئے یورپی یونین اور یونان کی صف بندی روس کے خلاف مغرب کے متحدہ محاذ میں پھوٹ پڑے کے معنی میں ہے۔ روس کی نظر میں اس یورپی یونین کمزور پڑجائے گي۔ دوسری طرف سے یورپ سے یونان کی دوری ناگزیر طورپر ماسکو سے قریب کے معنی میں ہے۔ واضح رہے یونان کی قوم کی جانب سے مغربی ملکوں کی شرایط کا مسترد کیا جانا موجودہ بین الاقوامی سیاسی اور مالی نظام کو مسترد کرنا ہے جس نے آج قوموں پر اپنی شرایط مسلط کرکے نابرابری قائم کرکے نیز ان کا استحصال کرکے اپنی بنیادیں استوار کی ہیں۔ ارجنٹائن کی صدر کرسیٹینا فرندز کرشنر نے یونان کے ریفرینڈم کے نتائج پر خوشی اظہار کرتے ہوئے اسے جمہوریت اور کرامت کی بھرپور جیت قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ یونان کے عوام نے ان شرایط کو مسترد کردیا ہے جن سے وہ اپنے بھاری قرضے ادا کرنے کے لئے نہایت ذلیلانہ حالات سے دوچار ہونے والے تھے۔ ونزوئيلا کے صدر نے بھی یونانی قوم کے فیصلے کو یورپ کی مالی دہشتگردی کے خلاف ایک بڑا اور موثر قدم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ یونان کا شمار قرض کے بوجھ تلے دبے دنیا کے سرِ فہرست ملکوں میں ہوتا ہے جو صرف گزشتہ چند برسوں کے دوران اربوں یورو کے کئی بیل آؤٹ پیکج وصول کر چکا ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ریفرینڈم کے ان نتائج کے بعد یونان کو مزید اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کے علاوہ یورپی یونین کے اتحاد میں بھی دراڑیں پڑ سکتی ہیں- بہرحال چین،روس اور لاطینی امریکہ کے ممالک نے یونان کی حمایت کا اعلان کیا ہے جو یونان کی ان سے قربت کا باعث بنے گا اسی طرح یہ حمایت یونانی عوام کی حوصلہ افزائی کا سبب بھی ہوگا۔
دوسری طرف اس ریفرنڈم کے نتیجے نے یورپی یونین کو شش و پنج مین گرفتار کردیا ہے۔اگر وہ یونان کو یورو زون سے نکالتے ہیں تو یورو کو نقصان پہنچے گا اور اگراس کو خصوصی مراعات دیتے ہیں تو دوسرے رکن ممالک بھی اسی بات کی توقع رکھیں گے اور ان کے مطالبات میں بھی شدت آجائیگی اور اگر اس پر عمل نہ کیا گیا تو اس کا آخری نتیجہ بھی یورو سے انکی جدائی کی صورت مین ظاہر ہوگا۔ یونان اور یورپی یونین کی موجودہ صورت کا اس وقت بہترین تجزیہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ یونان کا حالیہ ریفرنڈم ایک سیاسی زلزلہ تھا جسکے خطرناک آفٹر شاک ابھی آنے والے ہیں۔