الوقت- اس بات پر توجہ رکھناچاہیے کہ علاقے میں آل سعود کی رقابتی پالیسیاں فلسطین کے تعلق سے ریاض کی عملی پالیسیوں اور اسکی ترجیحات کو تبدیل کرنے میں موثر واقع ہوئي ہیں اور ان ہی رقابتی پالیسیون کی وجہ سے ديگر اسلامی اور عرب ملکوں سے آل سعود کے تعلقات پر بھی اثرات پڑے ہیں۔ نتیجے میں فلسطینی کاز سے خیانت ہوجاتی ہے اورمسئلہ فلسطین عالم اسلام کے مرکزی مسئلے سے ہٹ کر فرعی مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بھی علاقے میں سعودی عرب کی رقابتی پالیسیاں کار ساز رہی ہیں اور دوہزار دو سے شروع ہوتی ہیں اور تین ادوار پر مشتمل ہیں۔
پہلا دور دوہزار دو سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں دو مرکز بن گئےتھے جو علاقے میں رقابتوں کی قیادت کررہے ہیں۔ ایک ایران کا محور اور دوسرا سعودی عرب کا ۔ ان محوروں کی رقابتیں اور رسہ کشی سے تحریک انتفاضہ کے بعد فلسطین کی مرکزیت بہت کم ہوگئي۔ آل سعود کی رقابتیں اس بات کا سبب بنیں کہ کم از کم قلیل مدت کے لئے وہ مسئلہ فلسطین کو اہمیت نہ دے اور مسئلہ فلسطین سے متعلق دیگر امورکو سرد خانے میں ڈال دے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہےکہ فلسطین علاقائي رقابتوں میں گم ہوکر رہ گيا ہے۔ دوہزارسات میں غزہ پٹی پر حماس کے قبضے سے ایران اور سعودی عرب کی رسہ کشی میں اضافہ ہوگيا اور نتیجے میں فلسطینیوں کے مسائل بھی پیچیدہ ہوتے گئے۔
دوسرا دور دوہزار دس میں عرب ملکوں میں عوامی تحریکوں کے آغاز سے شروع ہوتا ہے اور اب بھی جاری ہے۔ اس دور میں سعودی عرب نے فلسطین کے تعلق سےزیادہ سرگرمیاں دکھائي ہیں۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کو شمالی افریقہ اور دیگر عرب ملکوں کی عوامی تحریکوں سے اپنا تخت و تاج خطرے میں دکھائي دے رہا تھا لھذا انہوں نے مسئلہ فلسطین میں پناہ لی اور اپنے تخت و تاج کو بچانے کے لئے دیگر ہتھکنڈوں کے ساتھ مسئلہ فلسطین کو بھی استعمال کرنا شروع کیا۔ سعودی عرب نے اپنی اس پالیسی کے تحت فلسطین کی خود مختار انتظامیہ کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی وجہ سے اس نے اقوام متحدہ میں فلسطینی حکومت کی رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں اور دوحہ معاہدے کی جم کر حمایت کی۔
تیسرا دور: اس دور میں سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین کی مرکزیت کو ختم کرنے کوششیں دوبارہ شروع کردیں۔ یہ دور تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے ظہور سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سعودی عرب نے علاقے کے دیگر مسائل کو مسئلہ فلسطین پر ترجیح دینا شروع کردیا کیونکہ علاقے میں نئے سرے سے مختلف مسائل پر رقابتیں شروع ہوچکی تھیں اور نئے نئے بحران سراٹھا رہے تھے۔ ان ہی مسائل کی وجہ سے سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر سرد خانے میں ڈال دیا ۔ اس دورے میں آپ دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب کی پالیسیوں میں فلسطین کا کہیں ذکر نہیں ملتا ہے اور اس کی وہی پرانی روشیں دکھائي دیتی ہیں، اس دور میں یہ دکھائي دیتا ہے کہ آل سعود نے فلسطین کو مرکزی حیثیت دلوانے کے لئے کوئي کام نہیں کیا اور ابھی مستقبل قریب میں کرے گا بھی نہیں۔ سعودی عرب کے سامنے شام، یمن عراق اور بحرین جیسے خارجہ پالیسی کے مسائل ہیں لھذا یہ بعید ہےکہ فلسطین کے تعلق سے شاہ سلمان کی خارجہ پالیسی میں کوئي تبدیلی آئے۔
ان حالات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہےکہ فلسطین کے تعلق سے سعودی عرب کی پالیسیوں میں کوئي تبدیلی نہیں آئے گي لیکن بتدریج نچلی سطح پر کچھ تبدیلیوں کی امید ہے۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ شاہ سلیمان نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ وہ اپنے اسلاف کی پالیسیوں پر کار بند رہیں گے تاہم امریکی جاسوس تنظیم سی آئي اے کی رپورٹوں کے مطابق شاہ سلمان ان افراد میں ہیں جو تکفیری گروہوں اور خاص طور سے القاعدہ کی حمایت کرتے تھے۔ ان کی یہ حمایت افغانستان سے بوسنیا تک جاری تھی۔ شاہ سلمان کے اس ماضی کے پیش نظر یہ توقع رکھنا عبث ہےکہ وہ مسئلہ فلسطین میں کوئي مثبت کردار ادا کریں گے۔