الوقت- استعماری طاقتوں کا طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے طاقت کا سہارا لیتے ہیں اور طاقت اور فوجی حکمت عملی کے ذریعے قوموں کا استحصال کرتے ہیں اور اپنی اہداف تک رسائی کے لئے خون کی نہریں بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ذرائع ابلاغ میں اپنے ظلم اور غیر انسانی اقدامات کو آزادی اور جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔ عالمی سامراج جہاں مسلم ورلڈ کودومتحارب گروپوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے وہاں عالم اسلام میں تنازعات پیدا کرکے کمزور کرنا چاہتا ہے کیونکہ مسلم ملکوں میں جنگ کا فائدہ ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کو ہوا۔مسلمانوں کو کمزور کرنے کے علاوہ امریکہ اپنے مقابلے مین آنے والی ہر قوت کو نیست و نابود کرنے پر تیار رہتا ہے کیونکہ سامراج کی ماہیت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقابلے میں انے والی ہرطاقت کو یا تو سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کردیتا یا اسے صفحہ ہستی سے نابو کرنے پر تل جاتا ہے ۔اس حوالے سے سامرای طاقتیں آئے روز نئی نئی حکمت عملیاں تیار کرتے ہیں اور اس پر عمل درامد کے نئے نئے منصوبے بناتی ہیں ۔امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سامراج ہے اور یہ بھی اپنی سامراجی پالیسیوں کو تیزی سے آگئے بڑھا رہا ہے امریکہ جنوبی بحیرۂ چین میں کشیدگی برقرار رکھے جانے کیلئے کوشاں ھے۔ اس مقصد سے وہ خطے میں جنگی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے اپنے اتحادی ممالک کو اکسا رھا ھے۔ امریکی وزارت جنگ پنٹاگون نے اپنے نئي فوجی اسٹراٹیجی میں چين سمیت چار ملکوں کے ناموں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہےکہ یہ چاروں ممالک امریکی مفادات کے لئے خطرہ شمار ہوتے ہیں۔ امریکی وزارت جنگ کی بیس صفحات پر مشتمل دستاویز میں آیاہے کہ بعض ممالک عالمی نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکی وزارت جنگ کی یہ دستاویز امریکی چيف آف اسٹافس کمیٹی کے چیرمین جنرل ڈمپسی کی سربراہی میں تیار کی گئي ہے۔ امریکہ نے اس دستاویز میں چین کو خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا گيا ہے کہ چین کا مصنوعی جزیرے بنانا ایک جارحانہ اقدام ہے اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اس مسئلے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ امریکہ کے مطابق مصنوعی جزیرے بنانے سے چین کو یہ سہولت مل جائے گي کہ وہ اپنی افواج بین الاقوامی آبی راستوں کے قریب تعینات کرسکے گا۔ امریکی حکومت کی نئي فوجی اسٹراٹیجی میں کہا گیا ہےکہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ امریکہ چین جیسے طاقتور ملک سے جنگ کرے تاہم اب یہ امکان بڑھتا جارہا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ کے مسئلے پر بعض مبصرین نے اظہار خیال کیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ کی خود سرانہ پالیسیوں کی وجہ سے بالخصوص چین اور روس کے خلاف اس کی مخاصمانہ پالیسیاں ممکنہ طور پر جنگ پر منتج ہوسکتی ہیں۔ سیاس مبصرین کا کہنا ہےکہ جنوبی چین سمندر میں امریکہ اور چین کے درمیان رسہ کشی اور اس سمندری علاقے میں بعض ملکوں کے ساتھ امریکہ کا فوجی مشقیں کرنا چین اور امریکہ کو ناگزیر جنگ کے جہنم میں دھکیل سکتا ہے۔واضح رہے چین کا کہنا ہےکہ جنوبی چین سمندر کا بڑا علاقہ اس کے قلمرو میں شامل ہے۔امریکہ نے صرف جنوبی چین کے سمندر میں چین کو چیلنج نہیں کیا ہے بلکہ بارہا چین پر یہ الزام لگایا ہے بیجنگ امریکہ پر سائبر حملوں میں ملوث ہے۔ اس کےعلاوہ امریکہ چین کی فوجی طاقت کو خطرہ بنا کر بھرپور پروپگينڈا کررہا ہے۔ امریکہ کے ان منفی اقدامات سے معلوم ہوتا ہےکہ امریکہ چین کے ساتھ تعمیری تعاون کرنے کا قصد نہیں رکھتا۔ امریکی حکام نے چین کی میزائلی طاقت کے خلاف پروپگينڈا کرکے کہا ہےکہ چین نے ایسے میزائل بنالئے ہیں جو صرف امریکہ کے طیارہ بردار بیڑوں کونشانہ بناسکتے ہیں۔امریکہ کے اتحادی ممالک بالخصوص فلپائن بھی متنازعہ علاقے میں چین کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے جاپان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں کوشاں ھے۔ یہ اتفاق کی بات نہیں کہ فلپائن کے صدر آکینو نے ٹوکیو میں تقریر کرتے ھوئے چین کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ نہ ھونے دینے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ چین فسطائی جرمنی کی طرح قابضانہ پالیسی پر گامزن ھے۔ مشرق بعید سے متعلق روسی سائنسی ادارے کے اھل کار آلیکساندر لارین نے اس حوالے سے رائے ظاھرکرتے ھوئے کہا: ' چونکہ جنوبی بحیرۂ چین کے خطے میں کشیدگی بڑھ رھی ھے، اس لئےمخالف فریق وزنی دلائل کی تلاش میں مختلف تاریخی واقعات کا حوالہ دینے لگے ھیں۔ یہ طریقہ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اور جاپان پر فتح کی ستر ویں سالگرہ کی حالیہ تقریبات کے سلسلے میں خاص طور پر مقبول عام بن گیا ھے واضح رہے امریکہ نے اپنی نئي فوجی اسٹراٹیجی کے مطابق ساٹھ فیصد فوجی طاقت ایشیا میں لگارکھی ہے اور چین کے اطراف کے علاقوں میں میزائلی شیلڈ نصب کردی ہے جس سے اس علاقے میں روزبروز کشیدگي میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی بناپر مبصرین کا خیال ہےکہ امریکہ کی جانب چین کو اپنے مفادات کے لئے خطرہ قرار دینا مشرقی ایشا میں واشنگٹن کے فوجی منصوبوں کا جواز پیش کرنے کی کوششیں ہیں اور امریکہ اس طرح سے چین کو کنٹرول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چین کے خلاف امریکی سازشوں کی وجہ یہ ہےکہ چین نے حالیہ برسوں میں دنیا میں معرض وجود میں آنے والی نئي طاقتوں کے ہمراہ عالمی سطح پر امریکہ کی چودھراہٹ کو چیلنج کیا ہے۔ چين نے اقتصادی سیاسی اور سیکورٹی شعبوں میں امریکہ کی خود سرانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کےلئے ایشیا میں سرمایہ کاری کے لئے بینک قائم کیا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم نیز بریکس جیسی تنظیموں میں شمولیت اختیار کرکے عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کررہا ہے۔ واضح رہے بریکس کے ممالک جن میں برازیل، روس، ہندوستان ، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ یہ ممالک دنیا کی پیداوار کے بڑۓ حصہ دار ہونے کی بناپر عالمی سطح پر اہم کردار ادا کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے امریکہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہے اور اس سلسلے کو ختم کرنے کے لئے اپنی فوجی طاقت کا سہارا لے رہا ہے۔