الوقت- عرب دنیا آج کل مختلف اجلاسوں میں مصروف ہے اور قابل غور امر یہ ہے کہ ان اجلاسوں کا اہم موضوع دہشتگردی اور اس کا سد باب ہے۔بعض عرب ممالک نے جب شام کے صدر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے کھلے عام دہشتگردوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسوقت کے سعودی وزیرخارجہ بندر بن سلطان نے دنیابھر سے جہاد کے نام پر دہشتگردوں کو شام میں لانے کا منصوبہ تیار کیا تھا تو اس وقت بعض تجزیہ کاروں نے کہہ دیا تھا کہ آل سعود نے جس آگ کو ہوا دی ہے اس سے سعودی عرب سمیت پورا خطہ بری طرح متاثر ہوگا۔اس وقت بظاہر یہ معرکہ بشار اسد کے خلاف لڑا جارہا تھا لیکن اہل نظر کو اس کے پیچھے اسرائیل کے خفیہ ہاتھ نظر آرہے تھے ۔یہ لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ بشار اسد بہانہ ہے صیہونی لابی اسرائیل مخالف استقامتی بلاک کو کمزور کرنے کے درپے ہے لیکن نہ عربوں نے اس پر کان دھرے اور نہ ہی علاقائی ممالک نے اس پر توجہ دینے کی کوشش کی۔
آج مشرق وسطی آگ و خون کے جس طوفان میں گرفتار ہونے کو ہے اس کا خیال ہی رونگٹے کھڑے کردیتا ہے ۔آج داعش،النصرہ اور اس سے ملتے جلتے ناموں سے اس خطے کو ایک ایسی صورت حال سے دوچار کردیا ہے کہ عالم اسلام کا سب سے بڑامسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی آذادی مسلمانوں کی ترجیح سے ہی خارج ہوگیا ہے ۔فلسطین کے مجاہدین کی قربانیوں اور حزب اللہ کی جانفشانیوں سے اسرائیل کو عالمی سطح پر جو ہزیمت اٹھانی پڑ رہی تھی اور وہ عالمی سیاست میں مسلسل تنہائی کا شکار ہورہا تھااب اسکو کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں اور وہ مزے سے داعش اور النصرہ اور دیگر تکفیری گروپوں کی مسلمانوں کے خلاف دہشتگردانہ کاروائیوں کو دیکھ رہا ہے ۔اسرائیل اور اسکے اتحادی تو مطمئن نظر آرہے ہیں لیکن عرب حکمران جس دلدل میں پھنس رہے ہیں اسکے بارے میں انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے ۔
عرب لیگ نے مصر کے علاقے صحرائے سینامیں اس ملک کی فوج پر ہونے والے حملے کے صرف ایک روز بعد مصر کی درخواست پر اس قسم کے واقعات کا جائزہ لینے کیلئے ہنگامی اجلاس منعقد کیاجبکہ خلیج فارس تعاون کونسل کے وزراہ خارجہ نے کویت میں مسجد امام صادق (ع) میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد دھشتگردی کا مقابلہ کرنے کے راستوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک اجلاس منعقد کیاہے ۔
اگرچہ عراق، شام اور لیبیا دوسرے عرب ممالک کی نسبت دھشتگردی سے سب سے زیادہ دوچار ہیں اور آئے روز ان ممالک میں دھشتگردی کے واقعات رونما اور بم دھماکے ہو رہے ہیں تاہم دھشتگردی کا دائرہ صرف ان ممالک تک محدود نہیں ہے۔
مصر، تیونس اور کویت کا بھی شمار جملہ ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں چند روز قبل دھشتگردی کے رونما ہونے والے واقعات میں سیکڑوں افراد دھشتگردوں کا نشانہ بنے۔
مصر میں یکم جولائی کو دھشتگرد گروہ انصار بیت المقدس اور اس ملک کی فوج کے مابین صحرائے سینا میں شدید جھڑپ ہوئی جس میں 70 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اسی طرح ایک اور عرب ملک کویت میں 26 جون کو شیعوں کی مسجد امام صادق (ع) میں ہونے والے خودکش حملے میں 27 روزہ دار نمازی نماز جمعہ کی ادائیگی کے موقع پر شھیداور 270 زخمی ہوئے۔ جبکہ اسی روز تیونس کے سیاحتی مقام سوسہ کے مرحبا امپیریل ہوٹل میں دھشتگردی کے ایک واقعہ میں 27افراد ہلاک ہوئے جن میں کچھ غیر ملکی سیاح بھی تھے۔
دھشتگردی کے واقعات صرف ان ممالک میں ہی رونما نہیں ہوئے بلکہ اس سے قبل سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کی دو مساجد میں دھشتگردی کے واقعات رونما ہوئے جن میں کئی نمازی شھید اور زخمی ہوئے۔ اگرچہ اس میں شک نہیں ہے کہ عرب ممالک میں دھشتگردی کی اس لہر کے پیچھے علاقے سے باہر کے عناصر بھی کار فرما ہیں اور جیسا کہ بعض امریکی حکام من جملہ اس ملک کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اعتراف کیا کہ امریکہ کا دھشتگرد گروہوں کو بنانے میں اہم کردار ہے تاہم بعض عرب ممالک کا بھی دھشتگردی کو فروغ دینے میں امریکہ سے کم کردار نہیں رہا ہے۔
سعودی عرب دھشتگرد گروہوں کو تربیت دینے والا اصل ملک ہے۔ سعودی عرب میں تیل سے حاصل ہونے والے ڈالر اس ملک کے عوام کی ضرورتوں خاص طور پر نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ ہونے کے بجائے اس ملک کے شہزادوں کی جیب میں چلا جاتا ہے جو دھشتگردوں کے اصلی حامی ہیں ۔ اسی طرح کویت ، متحدہ عرب امارات اور قطر کے حکام بھی سعودی عرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مختلف حوالوں سے دھشتگرد گروہوں کی حمایت و مدد کر رہے ہیں ۔ لیکن دھشتگردی کی آگ جن ممالک نے لگائی ہے اب ان کے شعلوں نے خود ان کو اور ان کے حامیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے یہ خود ساختہ دھشتگردی اب عرب دنیا کیلئے چیلنج اور خوف و ھراس میں بدل چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عرب ممالک کے حکام دھشتگردی کی لعنت کو چڑ سے ختم کرنے اور سنجیدگی سے اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے صرف بیانات کی حد تک اس کی مذمت کرتے ہیں۔
خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے وزراء خارجہ اور عرب لیگ کے مستقل نمائندوں نے اپنے اجلاس میں صرف دھشتگردی کے خلاف سخت کارروائی پر اکتفا کیا اور اس اجلاس میں بھی یہ واضح نہیں کیا کہ کون دھشتگردی کے خلاف جامع منصوبے پر عمل در آمد کرائے گا ۔تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ عرب حکمرانوں کو دھشتگردی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے اپنے رویے اور اسی طرح اپنےحکومتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بلا شک عرب ممالک کو اس وقت دھشتگردی کے چیلنج کا سامنا ہے تاہم یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ دھشتگردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور اگر اس کو نہ روکا گیا تو یہ تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اوریوں خشک و تر دونوں اس آگ میں جل کر راکھ ہوجائیں گے۔