الوقت- امام خمینی کی طرف سے یوم القدس کا اعلان عالم اسلام کا ایک اسٹریٹجک جہادی اعلان تھا جس سے فلسطینی کاز کو بہت زیادہ فائدہ پہنچا جس نے اس خطے کی سیاست میں نئی تبدیلی پیدا کردی۔1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو شکست کاسامنا کرنا پڑا جس سے فلسطین کا مسئلہ منظر سے ہٹ گیا۔بہت سے عرب ممالک نفسیاتی حوالے سے شکست خوردہ ہوگئے اور انہوں نے مسئلہ فلسطین کو فراموش کردیا
.امام خمینی رح نے جب شاہ ایران کے خلاف اپنی تحریک کا اعلان کیا تو آپ نے اس وقت سے فلسطین کے مسئلے کو بھی اسی شدت سے اٹھایا۔آپ نے اس وقت فلسطین کوعالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا اور اس پر ہمیشہ تاکید کی۔انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی یہ مسئلہ ایرانی وزارت خارجہ کی ترجیح قرار پایا۔ایرانی انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض داخلی لبرل گروہوں نے اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی لیکن امام نے جمعتہ الوداع کو یوم القدس کے نام سے منانے کااعلان کرکے اسطرح کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔یوم القدس کے اعلان کے بعد فلسطین کا مسئلہ ایک بار پھر عالم اسلام کے اہم مسئلے کی صورت میں عالمی سیاست میں نمایاں ہوا ۔اسی وجہ سے سامراجی میڈیا نے پوری کوشش کی کہ اس دن کو کم اہم ثابت کریں لیکن یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی اور گذشتہ پینتیس سالوں میں اس میں ہرسال بہتری آرہی ہے اور عالمی برادری کی توجہ اس مسئلہ کی طرف مبذول ہورہی ہے اور اسکے نئے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں۔ایران کی ان کوششون کے نتیجے میں فلسطین کی آذادی کے لئے کئی جہاری تنظیمیں وجود میں آئیں اور فلسطین کی آذادی کا مسئلہ پہلے سے بڑھ کر عالمی برادری میں نمایاں ہوا۔آج پینتیس سال بعد بھی امام خمینی رح کی طرف سے اعلان کئے گئے یوم القدس کے مختلف زاویے سامنے آرہے ہیں اور صیہونی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے ،اس دن نے پوری دنیا کی حریت پسند تنظیموں کو اس بات کاموقع دیا ہے کہ وہ امام خمینی کی سامراج مخالف تحریک کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیکر بیت المقدس کی آذادی کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کریں۔
فلسطین کی موجودہ صورت حال گذشہ سالوں سے مختلف ہے۔فلسطینی جہادی تنظیموں نے جہادی روش کو اپنا کر فلسطین کے مسئلے کو دنیا کے ایک اہم مسئلے میں تبدیل کردیا ہے اور یہ صورت حال اسرائیل کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ہے اور اسرائیل کو خارجی چیلنجوں کے ساتھ ساتھ داخلی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے ۔صیہونی لیڈر شپ اور حکمران طبقے میں اختلاف روز بروز بڑھ رہا ہے جسکا منطقی نتیجہ ایک ایسا بحران ہے جس سے اسرائیلی حکومت کا باہر آنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہوگا۔