الوقت- پاکستان میں کیا ہونے والا ہے یہ وہ سوال سے جو اس وقت پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سوچنے والے ہر باشعور شخص کے قلب و زہن میں گردش کررہا ہے ۔پاکستان کے سیاستدانوں خاص کے سابق صدر آصف زرداری نے جس انداز سے پاکستانی فوج کو للکارا ہے اس نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے دوسری طرف پاکستان کے تمام بارڈر کسی نہ کسی مشکل کا شکار ہیں اور اس حوالے سے بھی حکومت پاکستان کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے ۔سرحدی مسائل کے ساتھ ساتھ جس مشکل نے سب سے زیادہ پاکستانی عوام اور محب وطن حلقوں کو پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے وہ دہشتگردی کا عفریت ہے جو کسی کے قابو میں نہیں آرہا ہے پاکستانی فوج نے ضرب عضب کے نام سے ایک آپریشن ضرور شروع کررکھا ہے لیکن اس کے جو نتائج متوقع تھے ابھی تک برآمد نہیں ہوسکے کیونکہ دہشتگردی کی وارداتیں ابھی تک قابو میں نہیں آسکیں اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے دہشگرد اب بھی جہاں چاہتے ہیں بڑی آسانی سے کاروائی کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالسی کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی مسائل کا انبار نظر آرہا ہے سب سے اہم مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے ابھی تک باقاعدہ وزیر خارجہ بھی مقرر نہیں کیا ہے اور مشیر خارجہ سے وقت گزارا جارہا ہے۔افغاستان سے تعلقات کی بحالی کا مسئلہ جسکا دہشتگردی سے بھی قریبی ربط ہے ایک ایسی الجھن سے دوچار ہے جسکی کوئی ڈور ہاتھ میں نہیں آرہی ہے پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کے دورے اور افغان صدر کا شکایتی خط یہ سب کچھ اس بات کی نشاندھی کررہا ہے کہ معاملات سلجھنے کی بجائے مذید الجھ رہے ہیں پاکستان کو شکوہ ہے کہ اشرف غنی کی حکومت پاکستانی طالبان بالخصوص ملا فضل اللہ کو پاکستان کے سپرد نہیں کررہی ہے اور اشرف غنی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی افغانستان میں سرگرم طالبان کو افغان حکومت سے معاہدہ کرانے میں مخلص نہیں ہے دوسری طرف طالبان گروہ افغانستان میں مسلسل دہشتگردانہ کاروائیاں کررہا ہے اور یہ سلسلہ اس ملک کے شمالی علاقوں تک پھیل چکا ہے اور اندرونی حوالے سے کابل بھی انکی دسترس سے باہر نہیں ہے جسکی ایک مثال پارلیمنٹ کا حالیہ خودکش حملہ ہے ۔پاکستاں اور افغان قیادت کے دوروں سے برسوں کی بدگمانیوں کی فضا کو تحلیل کرنے میں بڑی مدد ملی۔ گرم جوشی اور خیرسگالی کی اس فضا کو پاک افغان مفاہمت کے مخالفین بھی خراب کرنے کی کوشش کررہے ہيں جن کا مقصد دونوں ملکوں کے عوام میں غلط فہمیاں پیدا کر کے، ایک دوسرے سے دور کرنا ہے۔ کہا گیا کہ پاکستان نے کابل کے بارے میں اپنے نو آبادیاتی تصورات ترک نہیں کیے‘ وہ اب بھی افغانستان میں تزویراتی گہرائی چاہتا ہےاور پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر زیادہ دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں امریکی میڈیا کی مدد سے چلائے جانے والے پراپیگنڈے کے اثرات اب واضح ہونے لگے ہیں۔ اگر صدر اشرف غنی کی حکومت دوبارہ پرانی پالیسیوں کی طرف پلٹ گئی تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔ خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ضرورت ہے کہ صدر اشرف غنی اور اس کے حامی مضبوطی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور پراپیگنڈہ بازوں کی کوششوں کو ناکام بنا دیں پاکستان کو بھی اپنا قبلہ سیدھا کرنا ہوگا۔ اوراسےطالبان اور دیگر انتہا پسندوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرنا ہوگی اور اپنی سرزمین کو افغانستان پر حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان اور پاکستان دہشت گردی کی جنگ مل کر لڑیں۔ دہشت گرد دونوں ملکوں ہی نہیں دنیا بھر کے امن پسند عوام کے دشمن ہیں، چاہیے تو یہ کہ ان کے خلاف لڑنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک متحد ہو جائیں۔ لیکن اگر کوئی اور نہ بھی آگے بڑھے تو کم ازکم پاکستان اور افغانستان کو ایسی روش سے اجتناب کرنا چاہیے جو ایک دوسرے کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صلاحیتوں پر اثرانداز ہوتی ہو۔تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ان مسئلوں کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں جو حکومت کے سامنے منہ کھول کر کھڑے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستانی قیادت ذاتی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہے۔