الوقت- مشرق وسطی میں جب سے اسلامی بیداری کی تحریک شروع ہوئی ہے عرب ممالک خاص کرمتحدہ عرب امارات نے ایسے افراد کے کے خلاف تادیبی کاروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا جو مذھبی مزاج رکھنے کے ساتھ ساتھ انقلابی سوچ کے حامل تھے۔اس دوران دوبئی۔ابوزھبی اور اسے سے ملحقہ دیگر ریاستوں میں لوگوں کو چن چن کا نکالا گیا۔آغاز پاکستان کے شیعہ نشیں علاقے پارہ چنار کے افراد کی دوبئی وغیرہ سے بےدخلی سے شروع ہوا اور اب یہ سلسلہ تمام شیعہ مسلمانوں تک پھیل چکا ہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔تازہ ترین رپورٹس سے پتہ چلا ہے کہ متحدہ عرب امارات سے شیعہ مسلمانوں کے اخراج کا انسانی حقوق تنظیموں نے نوٹس لیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے آل سعود کے ولی عھد کے جانشین اور وزیر دفاع کی درخواست پر سیکڑوں افغانی شیعہ مسلمانوں کو ملک سے نکال دیا ہے۔ آل سعود کے وزیر دفاع کی یہ درخواست براہ راست امارات کے سفیر کو پیش کی گئي تھی، بہت سے افغان شیعہ مسلمان تاجر ہیں جنہیں امارات سے نکال دیا گيا ہے۔ اس سے پہلے بھی متحدہ عرب امارات نے بہت سے لبنانی،پاکستانی اور عراقی شیعہ مسلمانوں کو ملک سے نکال دیا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے لبنانی شیعوں کوملک سے نکالنے کی کوئي اطمیان بخش وجہ نہيں بتائي ہے لیکن یہ دعوے کئے ہیں انہیں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ملک سے چلے جانے کو کہا گيا تھا، ان افراد کے خلاف کسی طرح کا جرم ثابت نہیں ہوا ہے بلکہ بے بنیاد بہانے بنا کر انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گيا ہے۔ لبنان کے حکام کا کہنا ہےکہ متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب سے گذشتہ چار برسوں کے دوران شیعہ مسلمانوں کا اخراج شام میں تکفیری دہشتگردوں کےخلاف حزب اللہ کی حمایت کی بنا پر عمل میں آیا ہے۔ سیاسی مبصرین کی نظر میں متحدہ عرب امارات کا یہ اقدام سعودی عرب کے اتحاد میں شمولیت کی وجہ سے دیکھنے کو مل رہا ہے اور اسی وجہ سے متحدہ عرب امارات خونخوار تکفیری گروہ جیسے جبھۃ النصرہ کی حمایت کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اس وقت شیعہ مسلمانون کو نکالنے کافیصلہ کیا جب سعودی عرب نے اسے یہ ضمانت دیدی کہ جبھۃ النصرۃ اور داعش امارات میں کسی طرح کی دہشتگردانہ کاروائياں انجام نہیں دیں گے۔ متحدہ عرب امارات کے سربراہ خلیفہ بن زايد آل نہیان ایسے حالات میں سعودی عرب کےوہابیوں کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں جبکہ دوہزار سات سے اب تک بہت سے اماراتی شیعہ آل سعود کے حمایت یافتہ تکفیری دہشتگردوں کی مجرمانہ کاروائيوں منجملہ اغوا، بھتہ خوری اور خود کش حملوں کا شکار بن چکےہیں۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اقوام متحدہ کا رکن ہونے کے باوجود انسانی حقوق کے قوانین پر عمل کرنے سے گریز کیا ہے۔انسانی حقوق کی پامالی پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے متعدد مرتبہ متحدہ عرب امارات کو وارننگ دی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں انسانی حقوق اور شہری حقوق کی کوئي جگہ نہیں ہے اور کم از کم معیار پر بھی انسانی حقوق کی پابندی نہیں کی جاتی ہے۔ علاقائي بحرانوں میں متحدہ عرب امارات کی مداخلت سے یہ ملک بھی آل سعود کی غیر انسانی فرقہ وارانہ پالیسیوں پر عمل کرنے والا بن گيا ہے۔ امارات سے شیعہ مسلمانوں کااخراج یہ ظاہر کرتا ہےکہ اس واقعے کے پس پردہ سیاسی اھداف ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کو آل سعود اور مغربی طاقتوں کی ہم اہنگي سے نکالا جارہا ہے۔عرب ممالک میں فرقہ ورانہ تعصب ان ملکوں کے حکام کی وجہ سے پھیل رہا ہے حالانکہ کے ان ممالک کے عوام میں کسی طرح کا تعصب نہیں ہے۔عرب حکام کا یہ رویہ مستقبل قریب میں سیاسی عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے اسلئے حکام کو بیرونی اشاروں پر اسطرح کے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔