الوقت- قطر خلیج کا ایک مالدار ملک ہے جس نے گذشتہ پانچ برسوں میں اسلامی بیداری کے دوران مغربی ایشیا اور عرب ملکوں میں زیادہ تر کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
قطر نے گذشتہ برسوں میں غزہ میں خاصہ اثر و رسوخ پیدا کیا تھا۔ اس اثر ورسوخ میں دوہزار گيارہ میں حماس کے دمشق سے نکلنے کے بعد اپنے عروج کو پہنچ گيا۔ یقینا غزہ پر قطر کے اثر ورسوخ سے اس علاقے اور فلسطینی گروہوں پر کافی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تحریک حماس اس وقت قطر کے قبضے میں ہے اور سب جانتے ہیں کہ غزہ پر حماس کی حکومت ہے۔ قطر کی پالیسیوں نے حماس کو بھی کافی حد تک متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حماس نے مصر میں اخوان المسلمین کے سابق صدر کی حکومت سے قریبی تعلقات قائم کرلئے تھے، شام کے بحران میں منفی کردا ادا کرتے ہوئے صدر بشار اسد کے مخالفین کی حمایت کی اس کے علاوہ ایران اور حزب اللہ کے ساتھ حماس کے تعلقات میں کمی آگئي۔ حماس نے اسی کے ساتھ ساتھ ترکی سے تعلقات بڑھانے شروع کردئے جو اخوان المسلمین کی حامی ہے۔ البتہ اس وقت حماس اور عبدالفتاح سیسی کی حکومت کے مابین نہایت سرد تعلقات ہیں کیونکہ بنیادی طور سے قطر سیسی کی حکومت کا مخالف ہے۔
قطر غزہ میں فلسطینیوں اور صیہونی حکومت کے درمیاں طویل مدت جنگ بندی کا معاہدے کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس مسئلے سے غزہ پر قطر کے اثر و رسوخ کا یقین ہوجاتا ہے۔ یہی مسئلہ اس وقت میڈیاکی توجہ کا بھی مرکز بنا ہوا ہے۔ اس وقت ترکی اور بعض یورپی حلقے بھی غزہ میں حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان طویل مدت جنگ بندی کا معاہدہ کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ گذشتہ مہینوں میں متعدد یورپی وفود نے غزہ کا دورہ کیا اور حماس کے سربراہ خالد مشعل نے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر سے ملاقات کی۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہےکہ غزہ کے لئے مختلف حلقے کام کررہے ہیں۔ ادھر اسرائيل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرت جاری ہیں۔ان مذاکرات کا بانی اور حامی قطر ہے اور جیسا کہ ہم نے بتایا کہ قطر غزہ میں جنگ بندی کرانے کی بھی بھرپور کوشش کرے گا۔ غزہ پٹی کی تعمیر نو اور اکاون روزہ صیہونی جارحیت میں ہونے والی ہمہ گير تباہی کا تدارک کرنا، غزہ کی تعمیر نو کی راہوں کا جائزہ لینے کے لئے غزہ تعمیر نو کمیٹی کے سربراہ محمد العمادی کی صیہونی حکومت کے کوآرڈی نیٹر یوآف پولی کے ساتھ ملاقات نیز اسرائيل سے غزہ کے لئے گيس کی فراہمی کے لئے قطر کی جانب سے دس ملین ڈالر کی امداد وہ جملہ مراعات ہیں جو جنگ بندی کے لئے قطر نے حماس کو دی ہیں۔
صیہونی حکومت کے ساتھ قطر کی ہماہنگي اور تعاون سے آل سعود طیش میں آگئی ہے۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران آل سعود کے بعض کارندوں اور صیہونی حکام کے درمیاں فرانس میں ایک ملاقات ہوئي تھی اس میں آل سعود کے حکام نے اسرائيل کے ساتھ قطر کےتعاون کو ھدف تنقید بناتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آل سعود کو اس بات کا خوف ہے کہیں اس کے یہودی ساتھی سے قطر کے بڑھتے ہوئے تعلقات ریاض اور اسرائيل کے سکیورٹی تعاون پر اثرانداز نہ ہوجائيں۔ ادھر صیہونیوں نے اپنے پرانے محسن آل سعود کو یقین دلایا ہے کہ چونکہ قطر غزہ میں بے پناہ اثر و رسوخ رکھتا ہے لھذا اس کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات اسٹراٹیجیک نوعیت کے ہیں۔
فلسطینی قوم اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ قطر کا حکمران خاندان اسرائيل کےساتھ مستحکم تعلقات رکھتا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہےکہ تحریک حماس جو خود کواسرائيل کے مقابلے میں سب سے بڑی اسلام تنظیم کہتی ہے کس طرح سے قطر کی گود میں بیٹھ گئي؟ کیا حماس کو قطر اور اسرائيل کے نہایت دوستانہ تعلقات سے خطرہ محسوس نہیں ہوتا؟ کیا اس بات کا امکان نہیں ہےکہ اسرائيل، حماس کے حق میں قطر کی حمایت کو نظر انداز کرتے ہوئے حماس پر حملے نہیں کرسکتا؟ کیا حماس کے حکام نے یہ فراموش کردیا ہے کہ اس کا اہم کمانڈر احمد الجعبری کس طرح سے شہید ہوئے ہیں؟ کیا صیہونی حکومت نے جعبری کی گاڑی کو آٹھ روزہ جنگ میں نشانہ نہیں بنایا تھا؟ قطر کے سابق بادشاہ نے غزہ کے دورے میں حماس کو کیا تحفہ دیا تھا؟ صیہونی حکومت برسوں سے جعبری کو قتل کرنا چاہتی تھی لیکن ہمیشہ ناکام رہتی تھی، یہ قطر تھا جس نے جعبری کے قتل کی راہ ہموار کی تھی۔اسی وجہ سے حماس میں آٹھ روزہ جنگ کے بعد اختلافات شدید ہوگئے۔
دوحہ میں حماس کے رہنماوں کو جان لینا چاہیے کہ اگر وہ اسرائيل کے خلاف مزاحمت کرنا چاہتے ہیں تو قطر اس راہ میں سب سےبڑی رکاوٹ ہے لیکن اگر حماس اب مزاحمت سے تھک گئي ہے اور تنظیم فتح کی مانند سازباز کرنے کی کوشش کررہی ہے تو جو راستہ اس نے قطر کے سہارا کے طور پر چنا ہے وہی اس کے لئے مناسب ہے۔ یہ راستہ اسے تاريخ میں ابنائے وطن کی فہرست میں تو نہیں لےجائے گا لیکن ابدی نکبت ا ور رسوائي و زلت کی جانب ضرور لے جائے گا۔