الوقت- پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں جہاں دونوں ملکوں کے سربراہون نے ٹیلی فونک گفتگو کی ہے وہاں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے وزیراعظم نواز شریف کو ٹیلی فون کر کے پاک بھارت کشیدگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جان کیری کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے ٹیلی فونک رابطہ کیا جس میں کہا کہ پاکستان اور بھارت خطے کے اہم ممالک ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نہ صرف امریکا بلکہ خطے کے لئے بھی تشویشناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی کوشش ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو قابو میں رکھا جائے اور فریقین معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کر لیں۔ ادھرپاکستان کےوزیراعظم نوازشریف کو ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کاٹیلی فون کیا جس میں دونوں وزرائے اعظم نے دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا جس میں نریندر مودی نے پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا جب کہ اس موقع پر وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ قوموں کے حکمران گھر کے سربراہ کی طرح ہوتے ہیں جو لڑائی سے بچاتے ہیں۔ پاک بھارت وزرائے اعظم کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو 5 منٹ تک جاری رہی جس میں نریندر مودی نے نوازشریف کو رمضان المبارک کی پیشگی مبارکباد دی اور گرفتار پاکستانی ماہی گیر بھی رہا کرنے کا اعلان کیا۔
واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم الوقت-نریندر مودی نے اپنے دورہ بنگلا دیش کے دوران مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلادیش کے قیام سے متعلق بھارتی سازش کا برملا اظہار کیا تھا اوراس کے بعد ان کے وزرا پاکستان مخالف بیان دینے میں ایک دوسرے سے بازی لیتے نظرآئے تاہم پاکستان نے بھی بھارتی ہرزہ سرائی کا منہ توڑ جواب دیا۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نے ایسے عالم مین پاکستان کے وزیر اعظم کو خیر سگالی کا پیغام دیا ہے کہ ہندوستان نے فرانس سے جدید جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے ۔ادھراسلام آباد میں ایک غیر ملکی ”این جی او” نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے آئندہ دس سال کے بعد کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔ایک غیر ملکی غیر سرکاری تنظیم ‘ فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ’ نے بھارتی اور پاکستانی سیاسی رہنمائوں، سابق سفیر، فوجی اہلکاروں اور میڈیا کے نمائندوں سے یہی سوال کیا کہ2024 میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کیسے ہوں گے؟’ فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ’ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات دس سال بعد کی صورتِ حال بھی آج کل سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی، جس میں بے اعتمادی اور جھگڑے کا سلسلے تقریبا اب جیسا ہی رہے گا جبکہ متنازع معاملوں کا حل ہونا بھی مشکل نظر آتا ہے۔رپورٹ شائع ہونے سے پہلے سیاسی تعلقات، عسکری اور سکیورٹی تعاون، معاشی اور تجاری تعلقات اور ثقافتی پہلوں پر ایک تین روزہ کانفرنس میں دونوں ممالک کے نمائندوں نے بات چیت کی جس کے نتیجے میں تین منظرناموں پر اتفاق ہوا۔پہلا اور بدترین منظرنامہ یہ ہے کہ 2024 میں اگر تصادم کی صورتِ حال پیدا ہوئی تو زیادہ ممکن ہے کہ یہ کشمیر میں شدت پسند حملے کی وجہ سے ہو۔ حملے کے بعد جنگ کا خطرہ ہو سکتا ہے، تاہم، بین الاقوامی دبا اور ذمہ داریوں کے باعث ، یہ لڑائی محدود رہے گی۔ تاہم، اس بات پر اتفاق ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات حادثوں کے شکار رہتے ہیں اور متنازع سرحدی علاقوں میں فائرنگ کے واقعات بھی بڑھ کر تصادم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، دوسرا منظرنامہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کا سلسلہ جاری رہے گا جس میں امن قائم کرنے کے عمل میں کبھی پیش رفت ہو گی اور کبھی نہیں۔ اس منظرنامے میں سویلین سیاسی قیادت کا تعلقات بہتر کرنے میں کردار اتنا ہی محدود رہے گا جیسے آج کل ہے۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ثقافتی تبادلے کے حوالے سے کچھ حد تک پیش رفت نظر آ رہی ہے، جیسے میڈیا کے مشترکہ پروگرام اور ثقافتی اور ادبی میلوں کے انعقاد میں اضافہ۔رپورٹ کے مطابق، 2024 میں سب سے بہترین منظرنامہ یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مثبت بات چیت ہو رہی ہو اور امن کے قیام کے لیے بتدریج بہتری نظر آ رہی ہو۔ تاہم، ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ اس بہترین منظرنامے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل اعتماد قائم ہو۔ اس منظرنامے میں تجاری تعلقات میں بھی بہتری نظر آئی گی لیکن سیاچن اور کشمیر کے معاملوں پر کسی قسم کے معاہدے کی امید نہیں ہے۔تاہم، سر کریک اور پانی کے معاملے میں مسائل حل ہو جائیں گے۔