الوقت- جینوا میں یمن کے گروہوں کے مذاکرات کا پہلا دن ایسے عالم میں گذرا کہ سعودی عرب اور اسکے پٹھوؤں کی سازشوں کے نتیجے میں تحریک انصاراللہ کا وفد جینوا نہیں پہنچ سکا۔ تحریک انصاراللہ کے وفد کے جینوا نہ پہنچنے سے بحران یمن کو حل کرنے کی رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی ۔
آل سعود نے پہلے ہی سے کوششیں شروع کردی تھیں کہ بحران یمن کے بارے میں جینوا میں مذاکرات نہ ہوں۔ آل سعود نے مذاکرات کے ایجنڈے میں اپنے مفادات کو شامل کرنے کی غرض سے اقوام متحدہ اور یمنی گروہوں پر بے حد دباؤ ڈالا ہے کیونکہ یمن کے حالات اور زمینی حقائق مکمل طرح سے جارح آل سعود کے خلاف ہیں اور یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کو ملک کے اندر ہرسطح پر برتری حاصل ہے، انصاراللہ نے اسی وجہ سے مذاکرات کا خیرمقدم کیا تھا۔
سرانجام یہ مذاکرات جنہیں اقوام متحدہ نے ابتدائي جامع مشاورتی نشست کا نام دیا تھا بڑی کشمکش اور رسہ کشی کے بعد گذشتہ روز پیر کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور یمن کےسابق مفرور صدر عبدربہ منصور ہادی کے نمائندوں کی موجودگي میں شروع ہوئے۔ اگرچہ ان نام نہاد مذاکرات کی تفصیلات سامنے نہیں آئي ہیں تاہم بان کی مون نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یمن کے بحرانی حالات کی بابت انتباہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ یمن اس وقت ٹائم بم کی طرح ہے جو ہرلمحے پھٹ سکتا ہے اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ ماہ مبارک رمضان میں مکمل طرح سے ملک گير جنگ بندی عمل میں آجائے۔ بان کی مون نے یمن پر آل سعود کی جارحیت کی طرف اشارہ کئے بغیر کہا کہ یمن میں مسلح گروہوں کو چاہیے کہ وہ یمن کےشہروں سے پسپائي اختیار کرلیں اور جنگ بندی کی پابندی کریں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جینوا نشست کے بعد انصاراللہ کے وفد سے ملاقات نہیں کی بلکہ صرف یمن کے سابق صدر کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ ادھر منصور ہادی کے نمائندوں نے اپنے پہلے کے موقف کو دوہرایا ہے کہ انصاراللہ کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے نکلنا ہوگا۔ منصور ہادی کے نمائندوں نے یہ بھی کہا کہ انصاراللہ کو اقوام متحدہ کی قرارداد بھی تسیلم کرنی ہوگي۔ عبد ربہ کے نمائندے عبدالعزیز جباری نے کہا کہ ہمیں نئے مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے اور قومی گفتگو میں طے شدہ معاہدوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائيس سو سولہ پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ منصور ہادی کے سابق وزیر خارجہ نےبھی کہا کہ اسی صورت میں جنگ بندی کا اعلان کی جائے کہ انصاراللہ یمنی شہروں سے نکل جائے اور منصور ہادی کے حامی قیدیوں کو رہا کردے۔
جینوا میں سب سے طاقتور فریق نہیں تھا
جینوا کی نشست میں جسے یمن کے گروہوں کے مذاکرات کا نام دیا جارہا ہے یمن کا سب سے طاقتور فریق ہی غائب تھا۔ انصاراللہ کا وفد آل سعود کی سازشوں کی وجہ سے جینوا نہیں پہنچ سکا۔ انصاراللہ کے وفد کو جیبوتی سے طیارے کے ذریعے جینوا جانا تھا لیکن ان کا طیارہ سعودی عرب اور اسکے پٹھوؤں کی سازشوں کی وجہ سے روانہ نہ ہوسکا۔ یمن کے حالات کوریج دینے والے ایک مستقل صحافی حکیم المسمری نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ جیبوتی، مصر، سوڈان اور ایتھیوپیا چوبیس گھنٹوں تک انصاراللہ کے وفد کے حامل طیاروں کو اڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انصاراللہ کے وفد جینوا نہ پہنچنے اور یمنی گروہوں کے مذاکرات کی نام نہاد نشست میں شرکت نہ کرنے سے اس کانفرنس کی کامیابی کی رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی یوں بھی پہلے سے اس کانفرنس سے کوئی خاص توقع نہیں کی جارہی تھی۔ادھر سعودی عرب کے سرحدی صوبے نجران کے قبائل نے یمن پر آل سعود کی جارحیت کی مذمت کی ہے اور اسے دوست ملک پر جارحیت، بے گناہ انسانوں کے قتل عام اور فتنہ و فساد سے تعبیر کیا ہے۔