حالیہ برسوں میں پاکستان کی فوج اور طالبان کے تعلقات میں کافی فراز و نشیب آئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے مطابق اندرون پاکستان اور بیرون ملک طالبان کے اقدامات میں بھی تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ گذشتہ چند مہینوں میں طالبان کے ہاتھوں ہونے والی دہشتگردی، بم دھماکے اور اغوا کی وارداتوں پر مختلف انداز میں تبصرے اور تجزیے سامنے آئے ہیں۔ ان تبصروں میں پاکستان کی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کوبہت کم طالبان کی کاروائيوں کا سبب قراردیا جاتا ہے۔ ہماری مراد یہ ہےکہ اس وقت پاکستان ایک نہایت حساس دور سے گذر رہا ہے جس سے پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات نیز ان کے نتیجے میں طالبان کی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات فاٹا بنیادی طور سے ایک آزاد علاقہ ہے جہاں چھے قبیلوں کی اجازہ داری ہے اور ان کے علاقے بھی الگ الگ ہیں۔ انیس سو سنتالیس میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے اب تک یہ علاقے مقامی زمین داروں اور قبائلی سرداروں کے زیر انتظام رہتے آئے ہیں۔ طالبان سے قبل ان علاقوں میں مقامی زمین داروں کی حکومت تھی جنہيں ملک کہا جاتا ہے لیکن طالبان کے اظہار وجود کے بعد یہ حکومت بغیر کسی چون و چرا کے طالبان کو منتقل کردی گئي۔ پاکستان اور افغانستان کے طالبان دو الگ الگ دھڑے ہیں لیکن ان کے مابین اشتراکات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ بعض مبصرین کا یہ تصور غلط ہے کہ پاکستانی فوج نے سرحدی علاقوں میں بفر زون قائم کرنے کی غرض سے ان علاقوں کو منظم طریقے سے امن و امان قائم کرنے کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ ان علاقوں کو شر پسندوں کی پرامن پناہ گاہوں میں تبدیل کررکھا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ افغانستان اور حتی ہندوستان میں بھی بالواسطہ جنگ کی توانائیوں کی حامل رہے۔ ایسی بات نہیں ہے پاکستانی فوج کی یہ دیرینہ آرزو ہے کہ وہ شمالی علاقہ جات میں اپنی رٹ قائم کرسکے لیکن بعض موقعوں پر کامیابیاں حاصل کرنے کےباوجود وہ اپنے اس ھدف میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
پاکستان کی طاقتور فوج نے ان علاقوں کی تشکیل میں کوئي کردار ادا نہیں کیا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ان علاقوں پر تسلط حاصل کرنے کی کوشش میں رہی ہے۔ البتہ اس بات میں بھی کوئي شک نہیں ہے کہ پاکستانی فوج ان علاقوں کی افادیت سے ہرگز غافل نہیں رہ سکتی اور چہ بسا اس علاقے کے سرغنوں کی طرح ہی رائےعامہ کو منحرف کرنے کے لئے کچھ واقعات کرگذرتی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے مقامی حلقہ ہائے اقتدار میں تشخص کا بحران اس افراتفری کا بنیاد سبب ہے۔ اسکے باوجود فوج سے طالبان کے مطالبات وصول نہ ہونا بھی ملک کے اندر جاری بدامنی اور بحران کا سبب قراردیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی فوج اس وقت نئے اور جوان کمانڈروں کے زیر انتظام ہے، فوج اور ملک کے روایتی سیاسی نظام میں کافی گہرے تضاد پائےجاتے ہیں یہی نہيں بلکہ فوج کے یہ نئے کمانڈر اپنے سینیروں سے بھی کافی اختلافات رکھتے ہیں۔ طالبان کے خلاف فوج کی پالیسیاں اس کا ایک نمونہ ہے۔ جہادیوں کے بارے ان کے رویوں کی تبدیلی ہے ۔پاکستانی فوج اس وقت سلامتی کی ایک نئی حکمت عملی بنا رہی ہے جس کی وجہ سے اسکو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جس کا مشاہدہ دیکھنے کو ملے گا۔اس وقت سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان مین آنے والی مختلف تبدیلیاں اور اس کا فوج سے کیا رابطہ سامنے آتا ہے کیونکہ اس سےفوج کی حیثیت کا تعین ہوگا۔ یہاں پر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی فوج میں کوئی جوہری تبدیلی آنے والی ہے اور کیا ملک میں آنے والی تبدیلیاں فوج پر اثر انداز ہورہی ہیں اور اسکا نتیجہ فوج میں تبدیلی کی صورت میں سامنے آئے گا؟اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی فوج پاکستان کے سیاسی،سلامتی،سرحدی اور دیگر شعبوں کے تحفظ اور سلامتی کی واحد طاقتور اور ذمہ دار قوت ہے۔ملک میں حالیہ اتحاد اور انسجام بھی اسی کے زریعے ہےاور ہر وہ چیز جو پاکستانی فوج کو کمزور کرے گی وہ ملکی استحکام کو کمزور کرنے کا باعث ہوگی جسکے اثرات نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی واضح طور پر محسوس کئے جائیں گے۔