الوقت-داعش دہشتگرد گروہ نے شاطرانہ ذہنيت كا ثبوت ديتے ہوئے اپنے خلاف ہونے والي تمام تر عالمي اور علاقائي كوششوں كو عراق اور شام تك محدود كرديا ہے ليكن اپني سياسي اور سماجي اور آئيڈيالوجيكل لحاظ سے اپنے دائرہ عمل كو مغربي ايشيا سے لےكر افغانستان و پاكستان تك پھيلا ركھا ہے۔ ياد رہے يہ علاقہ نہايت ہي بحراني علاقہ ہے اور اس سے ايران كي مشرقي سرحديں بھي ملتي ہيں۔
داعش نامي دہشتگرد گروہ محض عراق اور شام تك ہي محدود نہيں ہے بلكہ يہ ايك مسلسل خطرہ اور انتہا پسندي كا مظہر ہے۔ يہ بات دانشمندي نہيں ہوگي اگر ہم يہ كہيں كہ محض عرب علاقوں اور خليج فارس كے نقشے كو نظر ميں ركھ كر يا فوجي اقدامات كے ذريعے داعش كو محدود كيا جاسكتا ہے اسے نابود كرنا تو دور كي بات ہے۔ داعش رينگتي ہوئي ايك بين الاقوامي لعنت ہے۔ داعش كو ايك فكري اور سياسي تحريك قرار ديتے ہوئے اس كے بار ےميں تيں اہم نكات بيان كئے جاسكتے ہيں جن كو عام طور سے نظر انداز كرديا جاتا ہے۔ ان تين مسائل كے لئے جب تك كوئي حل نہيں نكالا جاسكتا داعش كا ناسور عالمي برادري كے جسم پر باقي رہے گا۔
پہلا نكتہ داعش كے وجود ميں آنے كا سماجي ميدان ہے۔
دوسري بات اسكي آئيڈيالوجيكل پوزيشن ہے اور تيسرا نكتہ مشرق وسطي اور عالمي سطح پر سكيورٹي كے لحاظ سے پائے جانے والي كمزورياں ہيں جن سے داعش جيسے گروہ غلط فائدہ اٹھاتے ہيں۔ ان تينوں نكات يا عوامل اس بات كا سبب بنتے ہيں كہ داعش يا اس جيسا كوئي اور آئيڈيالوجيكل گروہ ٹارگٹ علاقوں ميں اثر و رسوخ حاصل كرسكے۔ داعش اور اس كے جيسے گروہوں كي بنيادي طاقت انہيں ان معاشروں كےاندروني ڈھانچوں ميں موجود كمزوريوں سےحاصل ہوتي ہے جہاں وہ ہيں كيونكہ داعش ان كمزوريوں سے حيرت انگيز طور پر غلط فائدہ اٹھا كر انہيں برطرف كرنے كي كوشش كرتي ہے اور معاشروں ميں اپنا اثر ونفوذ قائم كرديتي ہے۔
گذشتہ ہفتے افغانستان ميں امريكہ اور نيٹو كے كمانڈر جنرل كميپ بل نے نہايت اہم باتيں كہي تھيں ليكن عراق و شام كے حالات كے غبار ميں يہ باتيں چھپي رہ گئيں۔ كثير القومي فوج كے امريكي كمانڈر نے افغانستان ميں داعش كے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ كي بات كي تھي۔ انہوں نے كہا تھا كہ داعش نے ملا عمر كي سربراہي ميں طالبان كي ہزيمتوں سے پيدا ہونے والي مايوسي سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑي تيزي سے سرگرمياں شروع كردي ہيں اور وہ افغان شہريوں كو اپني صفوں ميں شامل كررہي ہے۔ اسي طرح كا بيان افغانستان كے قومي سلامتي كے مشير حنيف اتمر نے بھي ديا تھا۔ حنيف اتمر نے كہا تھا كہ كابل حكومت اپنے قومي اور اسٹراٹيجيك مفادات كے لئے نہايت سنگين خطرہ سمجھتي ہے۔ داعش نہ صرف حكومت افغانستان كو غير قانوني سمجھتي ہے بلكہ تمام ملكوں كو اپني نام نہاد خلافت كے تابع سمجھتے ہيں۔داعش نے حافظ محمد سعيد كو جو كہ پاكستان ميں طالبان كا معروف دہشتگرد ہے اپنا نمائندہ بناديا ہے اور اسے علاقے ميں اپنے اھداف كو پورا كرنے كي ذمہ داري سونپي ہے۔ حنيف اتمر نے علاقے كے مستقبل كي بابت تشويش كا اظہار كرتے ہوئے كہا كہ مشرقي تركستان كي دہشتگرد تنظيم شمالي افغانستان اور چين كو ھدف بنانے كي تيارياں كررہي ہے۔ ادھر تاجيكستان كا گروہ انصاراللہ اس ملك ميں داخل ہونا چاہتا ہے اور ازبكستان كي نام نہاد اسلامي تحريك بھي ازبكستان پر حملہ كرنا چاہتي ہے اور ا سكےبعد روس كا رخ كرنے كا ارادہ ركھتي ہے، انہوں نے كہاكہ لشكر طيبہ افغانستان كے شمال مشرقي علاقوں سے پاكستان اور كشمير پر كنٹرول حاصل كرنا چاہتي ہے۔
افغانستان كے ايك مبصر نے كابل كے اخبار اطلاعات كو انٹرويوميں كہا تھا كہ افغانستان كے شديد روايتي معاشرے، ناخواندگي اور انتہا پسندانہ فكر اور نہايت كٹر مذہبي جذبات نے انتہا پسند اور دہشتگرد گروہوں كو پنپنے كا بہترين موقع فراہم كيا ہے۔ اس افسوس ناك صورتحال كے پيش نظر كيا اب بھي داعش كا مقابلہ صرف فوجي راستوں سے ہي كيا جاسكتا ہے يہ سوچنے كا مقام ہے۔