ان دنوں امريكہ اور روس كے تعلقات نہايت كشيدہ ہوگئے ہيں، بلكہ يہ بھي كہا جاسكتا ہےكہ دونوں ملكوں كے تعلقات ميں سرد جنگ سے زيادہ كشيدگي آگئي ہے۔ اس كي وجہ يہ ہے كہ سرد جنگ كے زمانے ميں روس اور امريكہ كے درميان صلاح و مشوروں كا سلسلہ نہيں ٹوٹا تھا۔ اس بنياد پر روس اور امريكہ كے تعلقات كے بارے ميں تين امكاني سناريو پيش كئے جاسكتے ہيں جن ميں ہرايك عالمي تعلقات اور نظام پر اثر انداز ہوسكتا ہے۔ يہ سناريو حسب ذيل ہيں۔
الف: اسٹراٹيجيك مشاركت:
اس سناريو كے مطابق روس اور امريكہ كے تعلقات ميں اتني بہتري آئے گي كہ بہترين ممكنہ حد تك پنہچ جائيں گے۔ ان دوستانہ تعلقات كے نتيجے ميں سب سے پہلے دونوں ملكوں كے اقتصادي تعلقات ميں فروغ آئےگا اور جو دنيا كے اہم اور بنيادي مسائل ميں دونوں ملكوں كي اسٹراٹيجيك مشاركت پر منتج ہوگا۔ اسي سناريو پر ماضي ميں سابق روسي صدر مدودوف اور باراك اوباما عمل كررہے تھے ليكن چونكہ اس كے سامنے بے پناہ چيلنجز ہيں اور مستقبل قريب ميں اس پر عمل درآمد ناممكن لگتا ہے۔
درحقيقت امريكہ اور روس كے اختلافات نے ان كے تعلقات ميں اس قدر وسيع خليج پيدا كردي ہے كہ ان كا پاٹنا اب ناممكن نظر آتا ہے اور اسكے نتيجے ميں ماسكو اور واشنگٹن اسٹراٹيجيك مشاركت كے بارے ميں سوچ بھي نہيں سكتے۔
مركزي ايشياء اور قفقاز ميں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے كي امريكہ كي كوششيں، مشرق كي طرف نيٹوكے بڑھتے قدم اورمشرقي يورپ ميں نيٹو كي ميزائل شيلڈ وہ اہم ترين اختلافي مسائل ہيں جن سے سكيورٹي اور بقا كا مسئلہ بھي اٹھايا جارہا ہے۔ روس نے كہا ہےكہ امريكہ كي ميزائل شيلڈ سے اس كي بقا كو خطرہ لاحق ہوچكا ہے۔ اس درميان يوكرين كے بحران نے ماسكو اور واشنگٹن كے درميان كشيدگي ميں مزيد اضافہ كرديا اور اسكي وجہ سے دونوں ملكوں كےتعلقات بہت خراب ہوچكے ہيں۔
ب: نئي سرد جنگ:
اس سناريو ميں روس اور امريكہ كے تعلقات اتنے خراب ہوجائيں گے كہ ان سے ماضي كي سرد جنگ كي ياد تازہ ہوجائے گي۔سابق امريكي صدر بش كے دورہ صدارت ميں ماسكو اور واشنگٹن كے تعلقات اسي سمت بڑھ رہے تھے۔ يوكرين كے بحران كے معرض وجود ميں اور اس ميں شدت آنے كے بعد بھي دونوں ملكوں كے تعلقات ميں كچھ اسي قسم كي كشيدگي ديكھي گئي۔ ايسا لگتا ہے كہ امريكہ اور روس ميں سرد جنگ كےزمانے كے جنگ پسند ٹولے ہر موقع سے روس اور امريكہ كے تعلقات ميں كشيدگي پيدا كرنے كے لئےفائدہ اٹھاتے ہيں۔ واضح رہے روس اور امريكہ كے درميان سرد جنگ آئيڈيالوجيكل اختلافات اور جيو پاليٹيكل رقابت پر استوار تھي جبكہ آج كے حالات ميں امريكہ اور روس كي كشيدگي ميں آئيڈيالوجي كا كوئي دخل نہيں ہے، البتہ دونوں ملكوں كےدرميان جيوپاليٹيكل تنازعات بدستور موجود ہيں جن ميں بحران يوكرين سرفہرست ہے۔ان حقائق كے پيش نظر چونكہ دونوں ملكوں كے درميان آئيڈيالوجيكل تنازعات نہيں ہيں اور محض جيوپاليٹيكل مسائل ہيں لھذا نئي سرد جنگ بات كرنا فضول ہے۔
ج : ٹيكٹيكل تعاون اور محدود تنازعات
مغرب كو اس حالت ميں روس كے خلاف ڈٹ جانا چاہيے تھا اگر روس كے صدر ولاديمير پوتين نے انيس سو پينتاليس كے بعد سے كسي ملك پر قبضہ نہ كرنے كے اصول كي خلاف ورزي كي ہوتي- اس كےعلاوہ مغرب مكمل طرح سے روس كو گوشہ نشين نہيں كرسكتا كيونكہ روس، ايٹمي سكيورٹي، ايٹمي عدم پھيلاؤ، انسداد دہشتگردي، قطب شمال اور ديكر علاقائي مسائل جيسے ايران، افغانستان ميں مشتركہ مفادات كا حامل ہے۔اسي بنا پر روس كے ساتھ امريكہ كا تعاون نہ كرنا مختلف مسائل جيسے ايٹمي عدم پھيلاو اور ماحوليات كے تحفظ ميں ٹہراو لاسكتا ہے۔ ان مسائل كو مد نظر ركھتے ہوئےيہ يقين سے كہا جاسكتا ہےكہ امريكہ اور روس كے لئے نہايت ضروري ہے كہ وہ متعدد مسائل ميں باہمي تعاون كريں اور اسي كے ساتھ ساتھ اپنے مسائل بھي حل كرليں تاكہ ان كے زير اثر علاقے ان ہي كے كنٹرول ميں رہيں۔ در اصل امريكہ اور روس اپني شديد رقابت كے باوجود بہت سے شعبوں ميں آپس ميں تعاون كرنے كے محتاج ہيں- اسي وجہ سے يہ لگتا ہےكہ ٹيكٹيكل تعاون اور محدود تنازعات كا سناريو امريكہ اور روس كے تعلقات ميں ممكن نظر آتا ہے-