الوقت- روس نے گذشتہ كچھ عرصے سے سعودي عرب،قطر اور تركي كي شام ميں واضح مداخلت كے باوجود خاموشي اختيار كر ركھي تھي ليكن شام كے تاريخي شہر پر تكفيري دہشتگردوں كے قبضے كے بعد روس نے ايك بار پھر اپني سفارتي سرگرميوں ميں تيزي لانے كا فيصلہ كيا ہے اور دمشق كي سفارتي حمايت پر تاكيد كي ہے۔روس نے ايك بيان ميں دہشتگردي كے مقابلے كے حوالے سے مغرب كي دوغلي پاليسيوں پر تنقيد كرتے ہوئے عراق اور شام ميں داعش كے خلاف مشتركہ كوششوں پر تاكيد كي ہے۔يہ بيان اس وقت سامنے آيا ہے كہ تكفيري دہشتگردوں نے پاليمرا شہر پر قبضے كے بعد كم سے كم چار سو افراد كو جن ميں بچے اور عورتيں بھي شامل ہيں پھانسي دينے كا اعلان كيا ہے ۔اس شہر پر داعش نے ايك ہفتے قبل قبضہ كيا ہے اور اس بات كا انديشہ ہے كہ تكفيري گروہ اس شہر مين موجود تاريخي آثار كو مٹانے كي كوشش كرے گا۔آثار قديمہ كے ماہرين اس تباہي كو انساني تمدن كے ايك عظيم سانحہ سے تعبير كرہے ہيں۔
روس كي طرف جاري اس بيان ميں مذيد آيا ہے كہ امريكہ كي سربراہي ميں اگرچہ دہشتگردوں كے خلاف كوششيں كي گئي ہيں ليكن اسكے باوجود اس دہشتگرد تنظيم نے ايك منظم انداذ ميں شام اور عراق ميں اپني دہشتگردانہ كاروائيوں كو جاري ركھا ہوا ہے ۔يہ تنظيم كوشش كررہي ہے كہ دمشق سے بغدار كے وسيع علاقے ميں خلافت قائم كرے۔روس كي وزارت خارجہ نےعالمي اور علاقائي تنظيموں سے مطالبہ كيا ہے كہ دہشتگردي سے مقابلے كے لئے دوہري پاليسيوں كو ترك كيا جائےاور مشرق وسطي كے جو ممالك داعش سے نبردآزما ہيں ان كا ساتھ .دياجائے۔اس بيان كے علاوہ روس كے صدر نے برطانوي وزير اعظم ڈيوڈ كامرون سے ٹيلي فوني گفتگو كي اور شام كے موضوع پر تبادلہ خيال كيا۔دونوں نے شام كے موضوع پر مذاكرات كو دوبارہ شروع كرنے پر اتفاق كيا۔روس كي طرف سے شام كے مسئلے پر خاموشي كو يوكرين سے جوڑا جارہا ہے تاہم روسي صدر كي حاليہ كوششيں اور روسي وزارت خارجہ كا يہ بيان اس بات كو ظاہر كررہا ہے كہ روس نے ايك بار پھر اپني پاليسي پر نظر ثاني كي ہے كيونكہ اس سے پہلے روس كا يہ خيال تھا كہ اگر شام كے مسئلے پر روس خاموشي اختيار كرتا ہے تو يورپ كي طرف سے اس پر كچھ دباؤكم كيا جائيگا ليكن عملا ايسا نہ ہوسكا لہذا روس نے نہ صرف شام كے حوالے سے اہم بيان جاري كيا بلكہ برطانوي وزير اعظم سے اس موضوع پر تبادلہ خيال بھي كيا ہے۔اسي دوران ايراني كے ايك اہم سفارتكار حسين عبداللہيان نے بھي روس كا دورا كيا ہے اور روسي حكام سے علاقائي اور عالمي مسائل پر تبادلہ خيال كيا ہے ۔اب ديكھنا يہ ہے كہ روس كي طرف سے شام كے حوالے سے صوف سفارتي حمايت ہوتي ہے يا روس فوجي حوالے سے كوئي قدم اٹھاتا ہے ۔روس كے زرائع ابلاغ كي طرف سے حكومت پر دباؤ ڈالا جارہا ہے كہ ماسكو داعش كے مقابلے كے حوالے سے ايران كا ساتھ دے۔
.