بلوچستان كي اسٹراٹيجيك اہميت
كچھ عرصے سے علاقائي اور عالمي طاقتوں كي توجہ بلوچستان پر مركوز ہوچكي ہے۔ عالمي طاقتيں خطہ بلوچستان پر كيوں توجہ كررہي ہيں اور اس كے سكيورٹي نتائج كيا ہوسكتے ہيں اس كو سمجھنے كےلئے ہميں سب سے پہلے بلوچستان سے جڑئے ہوئے ملكوں كي قومي سلامتي كي ڈاكٹرائين اور اس خطے كي جغرافيائي اہميت كو سمجھنا ہوگا۔ جغرافيائي لحاظ سے بلوچستان نامي علاقہ افغانستان كے صوبہ نيمروز سے شروع ہوتا ہے اور ايران كے سيستان و بلوچستان كے صوبے سے ہوتا ہوا پاكستان كي رياست بلوچستان تك پھيلا ہوا ہے۔ اس كے علاوہ بلوچوں كي نيشنلسٹ نظر ميں بلوچستان كے كچھ ہمجوار علاقے ہيں جو ايران ميں صوبہ كرمان، جنوبي خراسان اور ہرمزگان ميں شامل ہيں جبكہ پاكستان ميں صوبہ سندھ اور پنجاب كے بھي كچھ علاقے اس ميں شامل ہيں۔ ايران پاكستان اور افغانستان ميں شامل خطہ بلوچستان ان ملكوں اقتصادي، سماجي اور تہذيبي لحاظ سے پسماندہ ترين علاقہ شمار ہوتا ہے۔ ان مشتركہ خطوں كے خلاف امتيازي سلوك اور تعصب بھي بھرپور طرح سے ديكھا جاسكتا ہے ليكن يہ بات كوئي اہميت نہيں ركھتي كيونكہ اس كا تعلق بيچارے عوام سے ہے۔گرچہ بلوچستان كے علاقوں ميں ترقي اور حقوق كي نسبت عوام كا شعور جاگ رہا ہے اوروہ بہتر سہولتوں اور مواقع كے لئے حكومت پر دباو ڈال رہے ہيں ليكن جس چيز نے اس وقت بلوچستان كي اہميت ميں اضافہ كرديا ہے وہ ان علاقوں ميں بيروني طاقتوں كي مداخلت ہے اور ان كے حالات كو متاثر كرنے كي كوششيں ہيں۔ يہ بات بھي خالي از لطف نہيں كہ خود بلوچستان كو اس بات كا علم نہيں ہےكہ وہ بڑي طاقتوں كي رسہ كشي كي وجہ سے اكيسويں صدي ميں پھينك ديا گيا ہے۔ بلوچستان كا علاقہ كس وجہ سے بڑي طاقتوں كي توجہ كا مركز بنا ہے اس كي دو وجوہات ہيں:
الف: سڑكوں اور ريلويز انفرا اسٹركچر كي بڑھتي ہوئي اہميت
ب: خليج فارس و بحريہ خزر كے علاقے سے تيل و گيس كي بڑھتي ہوئي برامدات۔
ريلويز اور سڑك كے راستوں كي اہميت كے بارے ميں يہ كہاجاسكتا ہےكہ انيسيويں اور بيسويں صدي ميں ريلويز اور سڑكوں كے سلسلے ميں اس وقت كي دو بڑي طاقتوں روس اور برطانيہ ميں بڑي شديد رسہ كشي جاري تھي۔ برطانيہ اس وقت ہندوستان پر پوري طرح قابض تھا جبكہ روس بھي مشرقي سرزميوں كي طرف بڑھنے كي كوشش كررہا تھا، برطانيہ كا يہ كہنا تھا ريلوے لائنوں اور سڑكوں سے مركزي ايشيا كو ملاكر اس بازي ميں روس كو شكست دي جاسكتي ہے۔ روس كي نظر ميں ريلويز اورسڑكوں سے مركزي ايشياء كے راستے ہندوستان تك پہنچنا آسان ہوجاتا تھا اور برطانيہ كو وہاں سے نكالا جاسكتا تھا۔ برطانيہ نے افغانستان اور ايران پہنچ كر ريلوے لائين كي آگے بڑھانے كامنصوبہ ترك كرديا، برطانيہ نے ايران كے شہر زاہدان ميں پہلي جنگ عظيم كي وجہ سے ريلوے پروجيكٹ پر كام بند كرديا تھا البتہ افغانستان ميں برطانيہ نے يہي كام تورخم ميں كيا تھا، برطانيہ يہ ريلوے لائن مركزي ايشيا تك لے جانا چاہتا تھا۔ ادھر روس نے سالنگ شاہراہ كو بلوچستان تك تعمير كرنے كا اعلان كياتھا تاكہ وہ پورے علاقے كو اپني فيڈرل رياست ميں تبديل كركے اس پر نگراني كرسكے۔ روس كو افغانستان ميں شكست ہوتي ہے اور سرخ افواج كو افغانستان سے شرمناك طريقے سے انخلا ء كرنا پڑتا ہے اور اسي كے نتيجے ميں سابق سوويت يونين كا شيراز بكھرجاتا ہے۔
آج زميني راستوں كي اہميت ميں كافي اضافہ ہوچكا ہے اور اب انہيں شمال و جنوب كے درميان پل كي حيثيت حاصل ہوگئي ہے اس كے علاوہ اس علاقے ميں موثر كردار ادا كرنے والے ملكوں كي تعداد ميں بھي اضافہ ہوچكا ہے۔
ہندوستان اور چين كواب دنياميں بڑي طاقتيں مانا جارہا ہے اور وہ عالمي سطح پر ايك دوسرے كے خلاف رقابت ميں جٹ گئي ہيں۔ اسي رقابت كے نتيجے ميں چين نے پاكستان كي بندرگاہ گوادر كو مكمل كرنے كي ذمہ داري سنبھال لي جبكہ ہندوستان نے ايران كے ساحلي شہر چابہار كي بندرگاہ كو توسيع دينے كا ٹھيكہ لے ليا ہے۔ ہندوستان چاہتا ہےكہ چابہار كي بندرگاہ كوتوسيع دے كر ايسا بنادے كہ اس ميں بڑے بڑے بحري جہاز لنگرانداز ہوسكيں اور اس شہر سے ريلوے لائين بچھا كر اسے افغانستان اور مركزي ايشياء سے متصل كردے تا كہ اس علاقے سے روس اور يورپ كے لئے اپني مصنوعات بھيج سكے۔چين نے اس وجہ سے پاكستان كي گوادر بندرگاہ كو مكمل كرنے كي كوشش شروع كردي ہے كہ وہ گوادر كو كاشغر سے ملانا چاہتا ہے جو سينكيانگ صوبے ميں واقع ہے۔ وہ اس طرح ہندو كش اور قراقرم تك راستہ تيار كرنا چاہتا ہے۔ يہاں ايك اہم سوال يہ ہے كہ كيا امريكہ اور روس ان تبديليوں كو خاموشي سے ديكھ رہے ہيں؟ ايسي بات نہيں ہے روس پوري طرح سے علاقے ميں انرجي كو منتقل كرنے كے راستوں بالخصوص گيس كي پائپ لائينوں پر بھي كافي توجہ كررہا ہے۔ گوادر تك دو گيس پائپ لائينيں پہنچيں گي۔ ايك تو ٹاپي گيس پائپ ہے جو تركمنستان سے آئے گي دوسري ايران سے آنے والي امن گيس پائپ لائين ہے جو عسلويہ سے گودار جائے گي تا كہ ہندوستان اور چين اس پائپ لائن كو مزيد بڑھا كر طويل مدت تك اپني انرجي كي ضرورتيں پوري كرسكيں۔ چونكہ بلوچستان كا علاقہ ان پائپ لائينوں كےراستے ميں پڑتا ہے اور اسي علاقے سے يہ گذريں گي تو فطري طور پر اس علاقے كي اہميت ميں اضافہ ہوجائے گاجو ہورہا ہے۔اسي وجہ سے يہ توقع بھي ركھني چاہيے كہ اس خطے كےتعلق سے بڑي طاقتوں كي رقابتيں شديد ہوجائيں گي، ان رقابتوں ميں اس وجہ سے بھي شدت آجائے گي كہ بلوچستان كے علاقے بڑے طويل ساحلوں كے مالك ہيں اور ان ميں مكران كے ساحل خاص اسٹراٹيجيك اہميت كے حامل ہيں۔ مكران كے ساحل ہرمزگان كے جاسك علاقے سے لے كر شمالي كراچي تك ہيں۔ ان ہي مسائل كے پيش نظر گوادر اور چابہار بندرگاہيں عالمي معاملات ميں اسٹراٹيجيك حيثيت كي حامل ہوجاتي ہيں۔ چين كے صدر نے پاكستان كے حاليہ دورے ميں چھياليس ارب ڈالركي خطير سرمايہ كاري كرنے كا وعدہ كيا ہے اور ہندوستان كے وزير ٹرانسپورٹ گڈكري نے بھي دورہ تہران ميں چابہار بندرگاہ ميں سرمايہ گذاري كرنے كي خواہش ظاہر كي ہے اس سے يہي ظاہر ہوتا ہے كہ ان علاقوں پر بڑي طاقتوں كي نگاہيں جمي ہوئي ہيں۔چابہار اور گوادر ميں ہندوستان اور چين كي سرمايہ كاري صرف ترقياتي امور تك ہي محدود نہيں ہوگي بلكہ ان كے سياسي اور سكيورٹي اثرات بھي ديكھے جائيں گے۔ پاكستان، ہندوستان پر يہ الزام لگاتا آرہا ہے كہ وہ صوبہ بلوچستان ميں عليحدگي پسندوں كي حمايت كررہا ہے۔ البتہ پاكستان نے يہي الزام دبے لفظوں ميں امريكہ پر بھي لگايا ہے۔اس بات ميں كسي طرح كا شك نہيں كيا جاسكتا كہ گوادر ميں چين كي وسيع سرمايہ كاري بر صغير ہند ميں طاقت كے توازن پر كافي اثر انداز ہوگي۔ يہ حقيقت اس وقت پوري طرح كھل كر سامنے آجاتي ہے جب ہم يہ ديكھتے ہيں كہ امريكہ، پاكستان كے ساتھ كئي دہائيوں پر مبني روايتي تعلقات كے باوجود چند برسوں سے ہندوستان كي طرف جھكتا نظڑ آرہا ہے اور اب امريكہ كي نظر پاكستان كي وہ پوزيشن نہيں رہ گئي جو كبھي سرد جنگ كے زمانے ميں تھي۔ امريكہ كي يہ پاليسي اور ہندوستان كو پاكستان كي جگہ دينا جو بہرحال پاكستان سے زيادہ سياسي استحكام كا حامل ہے اور جو برصغير ميں اپني پوزيشن حاصل كرنے كي كوشش كررہا ہے اس بات كا سبب بنا ہےكہ پاكستان چين كي طرف جھكے اور امريكہ كي بے رخي كا تدارك كرسكے۔اس طرح ہم ديكھتے ہيں كہ جنوبي ايشيا ميں وفادارياں بدل رہي ہيں اور طويل مدت ميں يہ عين ممكن ہوجائے گا كہ روايتي حليف ايك دوسرے كے دشمن بن جائيں۔ روس كے بارے ميں بھي يہ كہا جاسكتا ہےكہ يوكرين كے بحران كي وجہ سے امريكہ اور يورپ كے ساتھ اس كے جو اختلافات سامنے آرہے ہيں وہ چين كے قريب آرہا ہے اور ايران و پاكستان كے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم كرنے كي فكر ميں ہے۔ اسي رسہ كشي ميں بلوچستان كا علاقہ بھي بڑي طاقتوں كے مفادات كي جنگ كا ميدان بن سكتا ہے، مفادات كي يہ جنگ طويل مدت ہوگي جن ميں سياسي اور اقتصادي مفادات كو ترجيح حاصل ہوگي اور يہ رسہ كشي فوجي پيرائے ميں بھي سامنے آسكتي ہے اور چہ بسا اسے آئيڈيالوجي كا لبادہ بھي اوڑھايا جاسكتا ہے چنانچہ آج پاكستان كے بلوچستان ميں ايك طرف نيشنلزم تو دوسري طرف انتھا پسند نام نہاد اسلامي حلقے ہيں۔ پاكستان كے بلوچستان ميں قوم پرست عليحدگي پسند حلقوں پر يہ الزام ہے كہ انہيں ہندوستان كي حمايت حاصل ہے شايد اسي وجہ سے پاكستان كي حكومت نے بلوچستان ميں مذہبي انتھا پسند حلقوں كي اس اميد سے تقويت كي ہے كہ وہ قوم پرستوں كو اپنے قابو ميں كرليں گے۔ البتہ حكومت پاكستان كو اس بات كا تجربہ ہے كہ مذہبي انتہا پسند عناصر دو دھاري تلوار كا حكم ركھتے ہيں اور طويل مدت ميں اپنے مالك كا بھي ہاتھ كاٹ سكتے ہيں۔
ان تمام مسائل كو ديكھتے ہوئے كہا جاسكتا ہےكہ بلوچستان كے علاقے اب نئے مرحلے ميں داخل ہوچكے ہيں اور اس كي سب سے بڑي علامت ان خطوں كےتعلق سے بڑي طاقتوں كي رقابت ہے۔چابہار اور گوادر اس رقابت كا مركز ہيں۔ اگر اس دوران ايران اور پاكستان نے ہوشياري سے كام نہ ليا اور اپنے اپنے بلوچستانوں كے شہريوں كو ترقي نہ دلائي اور ان كي مانگيں پوري نہ كيں يہ علاقے انتھا پسند حلقوں اور نيشلسٹ قوتوں كي جنگ كا ميدان بن جائيں گے اور بڑي طاقتيں اس گندلے پاني ميں مچھليوں كاشكار كرنے سے يعني اپنا الو سيدھا كرنے سے نہيں چوكيں گي۔