طالبان
موجوده دورمیں افغانستان کی سرزمین میں منظر عام پر آنے والا ایک ایسا گروه ہے جو بڑی طاقتوں کی ایک طویل
کشمکش اور روس کے افغانستان
پر تسلط کے بعد 1994 میں افغانستان
پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا . پاکستا ن اور
سعودی عرب کی مکمل حمایت اور پشت
پناہی کے نتیجے میں یہ ملک 2001 تک طالبان کے کنڑول میں رہا . سابق سوویت یونین کے دوران
28دسمبر 1978 ع کو افغان جنگجووں نے روسی ا فواج کے خلاف هتھیار اٹھائے
جس کے نتیجه میں شوروی حکومت 1988 میں
افغانستا ن کی خاک کو ترک کرنے پر
مجبور هوگئی .سرخ فوج کا نکلنا تھا که
ایالات متحده جنوری نامی قرار داد
کی خلاف ورزی کرتے هوئے افغان
جنگجووں کی سرخ فوج کے خلاف حمایت کرنے لگا اور اس طرح افغانستا ن کی سرزمین بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ
کے لئے میدان جنگ میں تبدیل هو گئی. اس سرد جنگ کے اختتام اور افغانستان سے روسی
فوج کے انخلاء کے بعد
افغانستا ن اور پاکستان میں کچھ
داخلی تبدیلی واقع هوئی
جس کے نتیجه میں اس سرزمین پر عرب امارا ت اور خاص کر سعودی عرب کی حمایت سے
هزاروں کی تعداد میں سلفی مکتب فکر
کے حامل مدارس کی تاسیس کا عمل شروع هو گیا البته
طالبان کی پرورش اور ان کی حمایت
میں پاکستان کا اهم
کردار هے در اصل افغانسان میں
پاکستان کے قومی و ملی مفادات کی حفاظت
, پاکستان کے شمال مغرب اور افغانستان کی زمینی باڈر کی قریب بسنے والے
پشتون باشندوں کے ذریعے هوتی هے .جب
ان جهادی گروهوں مانند
حزب اسلامی حکمتیار نے پاکستان
کے مفادات کا خیال کرنے سے انکار
کیا تو پاکستا ن کے قبائلی
علاقوں میں بیت الله محسود کی
قیادت میں جنوبی وزیرستان دسمبر
2006 میں پاکستانی طالبان کی بنیاد رکھی
گئی.
طالبان کی تشکیل میں
اهم عناصر اجتماعی سوچ کا فقدان ,
پائدار اور انعطاف ناپذیر مذهبی رسوم , ثقافتی
اور اقتصادی فقر, قبائلی تعصب اور
داخلی کشمش , غیر مهذب اور
بداخلاقی , قومی,ملی اور بی
جا مذهی تعصب شامل ہے اس کے علاوه
بیرونی طاقتوں کی مفاد پرستی
کی آڑ میں آئے
روز بی جا مداخلت اور مختلف مفاد میں ان کے
موقف کا متفاوت اور متعارض هونا اہمیت
کا حامل هے .
ایڈیالوجی:
طالبان انتہاپسندانہ عقاید کے حامل هیں
جن کی جڑیں مکتب دیوبند سے ملتی هیں جو
وهابیت کی ایک شاخ هے . افراط
کی شکار یہ تحریک ابھی تک اپنے
اهداف و مقاصد کو مشخص کرنے سے قاصر هے اگرچه
اسلامی حکومت کی تشکیل کو اپنا اصلی هدف بیان کرتے هیں . احمد رشید اس کے بارے میں یوں بیان کرتا هے " طالبان اور ان سے منسلک گروهوں کی
قبائلی علاقوں اور پاکستا ن میں سیاسی ایجنڈا اور قیادت
کے سلسلے میں کسی ایک موقف پر جمع هونا
بظاهر نظر نهیں آتا . کیونکه
اسلا م آیات اور احادیث کی روشنی واضح بیان کرتا هے که کسی بے گناه انسان کو قتل
کرنا گویا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے
برابر هے . لیکن طالبانی سوچ کے حامل افراد
حکومت اسلامی اور خلافت اسلامی کی
تشکیل اور اسلامی قوانین کے اجرا ء کے
لئے اس طرح کے قتل و کشتار کو جائز سمجھتے هیں
اور اپنے پیروکاروں
کے لئے اسلامی قوانین کی اطاعت
لازمی تصور کرتے هیں. بنابرایں
طالبان اور ان کے هم فکر گروهوں
کا سیاسی نکته نظر صرف اور صرف
اسلامی حکومت کا احیاء هے
موجوده صورت حال میں پاکستانی طالبان جمعیت علمای هند کے افکار کو عملی جامه پهنانے
کے لئے پاکستان میں اسلامی
طرز کی حکومت بنانے کی کوشش میں ہیں.طالبان کی نظر میں
خلافت اور امارت میں عوام اور
گروهوں کی کوئی جگه نهیں بلکه حل و
عقد کے حامی قبائل کے سردار اور مذهبی و دینی رهبران مشترکه اس
عهده کے لئے ایک فرد کو منتخب
کریں اور ملک کے تمام اختیار اس خلیفه یا امیر کے پاس هوں. مغربی تہذیب وتمدن کی مخالفت تمام اسلامی گروهوں کا اهم هدف شمار
هوتا هے اور جو چیز طالبان اور
باقی انتہاپسند
گروهوں کو جدا کرتی هے وه یه هے که
یه انتہاپسند گروه
مغربی طرز زندگی کی مطلقاً نفی
کرتا هے باقی اسلامی گروهوں مانند اخوانی
جو مغربی فرهنگ کے منفی پهلووں پر تنقید تو کرتے هیں
لیکن ان کے مثبت پهلووں کو
تسلیم بھی کرتے هیں لیکن طالبان
اور دیوبند فکر کے حامل تمام مکاتب مغربی کلچر و تمدن کی مکمل مخالفت کرتےهیں .
بغیر کسی تجز یه و
تحلیل کے مغربی کلچر کا
قبول کرنا یا انکار بهت ساری مشکلات کا سبب هے
. جدید ٹیکنولوجی کے تما م وسائل
مثلا ٹیلیوژون , کیمره , سینما
,غربی لباس اور اس طرح کے باقی اشیاء
کے استفاده پر غیر
منطقی تعصب کا اظهار , طالبان
کی مغربی تمدن کیساتھ نفرت اور منفی سوچ کی عکاسی کرتا هے .طالبان
ٹیلیوژون اور سینما کو شیطانی
وسائل سمجھتے هیں . دره سوات
پر مسلط
گروه نے اسلامی قوانین
کے نفاذ یا تنقیذ الشریعه کا بهانه بنا کر خواتین کے لئے تعلیم حاصل کرنا ممنوع قرار دیا هے . مولوی فضل
الله کے
کهنے پر اس منطقه کے تقریباً 170
مدارس کو تباہ کردیا گیا هے روزنامه دی پاکستا ن نیوز (the Pakistan news) کے مطابق سوات میں خواتین
کے لئے تعلیم کے حصول کو ممنوع قرار دے دیا گیا اور اس طرح
400 مدارس که جو خواتین کے لئے مخصوص تھے بند کردیے گئے بعد میں
طالبا ن کی طرف سے اعلان
کیا گیا اور اس دوران مدارس اور
حکومتی اداروں پر مشتمل 170 عمارتوں کو
مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا.
طالبان کے بنیادی افکار , در اصل خشک عبادت کا رجحان اور دقیانوسی
خیالات کا مجموعه هے جو گذشته
کلامی اور فقهی ابحاث کا
نتیجه هے .صدر اسلام اور
درمیانی عهد کو اسلام کا
سنهری دور تسلیم کرتے هوئے هر خطا سے
پاک و منزه تصور کرنا اور اس دور
میں لکھی جانے والی تفاسیر اور دینی
مطالب کی تاویلات پر من
و آن خشک اعتقاد کا قائل هونا طالبان کے لئے ریڈیکل طر ز تفکر کی
نبیاد فراهم کرتا هے .
طالبان کے نزدیک اجتهاد کے
حامی مکاتب فکر کسی اهمیت کے حامل نهیں هیں در اصل طالبان کے
مکتب میں عوام کا کام فقط
گذشته علماء یا علمائ سلف کی
تعلیمات کی چشم بسته اور بغیر
چوں چراں تقلید کرنا هے . طالبان کے اس
اندھی تقلید کا طرز تفکر جدید دور میں اسلامی طرز زندگی سے
بد بینی اور دشمنی کا سبب بنا هے .
افراطی گروه صدر اسلام
میں دیهاتی اور دهی زندگی کو
بهترین طرز زندگی تصور کرتے هیں .خواتین کےساتھ سخت رویه
اور معاشره میں ان کے کردار کی نفی
کرنا سلفی سوچ و فکر کا نتیجه هے یہ لوگ زندگی
کی ضروریات کے بارے میں کچھ بھی
نهیں جانتے اور اسی طرح ان کی تفاسیر میں توحید اور شرک جیسے کلامی مفاهیم انتہا پسندانہ سوچ کی بنیاد فراهم کرتے هیں اور باقی تمام
اسلامی مکاتب فکر سے واضح اختلاف رکھتے هیں.
2- داخلی اور خارجی سیاست کے رد و بدل سے
حکومت افغانستان کے چیلنجز
میں اضافه:
افغانستان طویل عرصے سے
سازشوں اور مشکلات کا شکار هے .داخلی مشکلات میں طالبان کا اهم کردار هے اس کے علاوه
افغانستان کے داخلی معاملات اور
بیرونی طاقتوں کی مفاد پرستی
مثلا هندوستا ن اور پاکستا ن کے
داخلی اختلاف , اور غیر ملکی فوج کا افغانستان میں
موجود هونا بهت ساری مشکلات کا موجب بنتا هے .
مجلس شوری کے ارکان کے اعلان
نے افغانستان کی حکومت اور اس
کے قومی اتحاد جیسے
پیچیده معلاملات کی مشکلات میں
مزید اضافه کیا اور جس حکومت کی تشکیل مشکلات اور چیلنجز میں هوئی هو
تو اس کو مزید مشکلات اور چیلنجز
کا سامنا کرنا پڑے گا.ضمناً حکومت افغانستان جو اقتصادی اور بدامنی جیسے مسائل میں مبتلا تھی
توانائی کا بحران عوام کی
مشکلات میں مزید اضافه کا سبب بنا.گذشته 13 سالوں
سے بجلی کا نه هونا یا کم هونا افغانستا ن کی عوام کے روز مره مسائل میں شامل هے
. حکام نے همشیه
اس مشکل کے حل کےلئے صرف
تقریریں کی هیں اور عملاً کو اقدا م نهیں
کیا اور عوام کو اس مشکل گھڑی میں صبر اور برداشت کے علاوه کوئی چاره نظر نهیں
آتا ..
دوسری طرف
طالبان اور حکومت افغانستا ن کے درمیان مذاکرات, پاکستانی اور آمریکی
وزراء کے دورے دو اهم نقاط کے حامل هیں. اول واشنگٹن پاکستان کی مدد سے اسلام آباد میں ره کر غیر مستقیم
افغانستان کی نظارت کرے اور
باقی جهاد ی گروهوں مثل داعش کی
مدد سے
طالبان کی طاقت کو کمزور کرے