الوقت - میانمار میں حکمراں جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کئے جانے والے رویے کو نسلی خاتمے کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔
انہوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے تئیں میانمار حکومت کے رویے کو نسلی خاتمے کے زمرے میں رکھے جانے کو سخت قرار دیا اور کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ نسلی صفائے جیسی کوئی چیز رونما ہو رہی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس علاقے (راخين) میں بہت زیادہ دشمنی ہے، یہاں تک کہ مسلمان بھی مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اور معاملہ صرف نسلی صفائے کا نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کے باہمی اختلافات سے متعلق ہے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان تنازعات اور فاصلو کو برطرف کر دیں۔
واضح رہے کہ تقریبا 11 لاکھ کی آبادی والے روہنگیا مسلمان بنیادی طور پر میانمار کے راخين صوبے میں رہتے ہیں اور کئی دہائیوں سے وہ شدت پسند بودھسٹوں کے مظالم کا شکار ہیں۔ 2012 میں اس صوبے میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے شدید حملوں کے بعد تقریبا سوا لاکھ روہنگیا بے گھر ہو چکے ہیں اور انتہائی قابل رحم حالت میں کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ میانمار کی حکومت نے سیکورٹی کے بہانے ان پر کہیں بھی آنے جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور وہ ان کیمپوں میں قیدیوں کی طرح رہ رہے ہیں۔ اكتور 2016 میں بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر میانمار کے فوجیوں پر ہونے والے حملے کے بعد، جس میں 9 فوجی ہلاک ہو گئے تھے، روہنگیا مسلمانوں کے خلاف پھر سے حملے شروع ہو گئے ہیں۔