الوقت - تقسيم بندي كے اعتبار سے مذہب اہل سنت آبادي كے لحاظ سے مذہب اہل تشيع سے زيادہ ہےالبتہ مذہب اہل سنت صرف ايك فرقہ نہيں بلكہ يہ خود بھي تين حصوں ميں تقسيم ہوجاتا ہے۔
1. بريلوي
2. ديو بندي
3. اہل حديث (وہابيت)
اگر آبادي كے لحاظ سے ديكھيں تو بريلوي زيادہ ہيں ۔ ان كے بعد ديو بندي اور آخر ميں اہل حديث كا نام آتا ہے۔ پس موجودہ تحقيقات كے مطابق بريلوي مذہب آبادي كے لحاظ سے ۵۰ سے ۵۵ فيصد ہے جبكہ اس كے مقابلے ميں مذہب اہل تشيع تقريباً ۲۰ فيصد ہے۔ ديو بندي بھي ۲۰ فيصد اور اہل حديث يا وہابي سب سے كم يعني ۱۰ فيصد ہيں۔
البتہ جو تعداد مذہب اہل تشيع كي بيان ہوئي ہے ضروري نہيں يہ تعداد صحيح ہو۔ كيونكہ مذہب تشيع ہميشہ سے پاكستان ميں تحت فشار رہا ہے اور بعض افراد تقيہ كي بنا پر اپنے اصلي مذہب كو آشكار نہيں كرتے۔ بلكل اسي طرح جيسے عراق ميں صدام حسين كے ظلم كي وجہ سے عراق ميں تشيع كي آبادي ۵۰ فيصد تھي مگر جيسے ہي صدام حسين كي ظالمانہ حكومت ختم ہوئي تو واضح ہوا كہ تشيع كي آبادي۶۵ فيصد تھي۔
شيعہ اورسني مذہب كا شمار دو قديمي مذاہب ميں ہوتا ہے اور ان ميں تاريخ اسلام سےلے كر اب تك نظرياتي اختلاف چلا آرہا ہے۔ ليكن اس كے باوجود ان دو فرقوں ميں اتحاد پايا جاتا ہے۔ مذہب اہل سنت كے اپنے فرقے ہيں ان ميں شديد اختلاف پايا جاتا ہے۔ اور يہ اختلاف اس حد تك ہے كہ ايك دوسرے كو مرتد و كافر كہتے ہيں۔
اس سے پہلے كہ بريلوي مذہب كے بارےميں بتايا جائے مختصراً ديو بندي اور اہل حديث كي طرف اشارہ كرتے ہيں۔
ü ديو بندي:
اہل سنت كا پہلا فرقہ ديوبندي اعتقادي حوالے سے تعصب اور افراط كا شكار ہے۔ اور ديو بندي كي اكثريت مذہب تشيع اور بريلوي كو كافر سمجھتي ہے اور مزارات پر بھي نہيں جاتے۔
اس فرقہ كا آغاز ۱۸۶۶ ءميں اس وقت ہوا جب ہندوستان كے علاقے اتر پرديش ميں ايك ديني مدرسہ ديو بند بنايا گيا ۔ ديو بنديوں كي اكثريت قيام پاكستان كے خلاف تھي۔ ان كي مخالفت كا اندازہ اس بات سے لگايا جاسكتا ہےكہ جب ۱۹۴۷ ءميں پاكستان بنا تو انہوں نے قائد اعظم اور علامہ اقبال كو مورد ملامت قرار ديا۔ يہاں تك كہ علامہ اقبال نے علامہ حسين مدني كو جو كہ ديو بندي مدرسہ بنام دارالعلوم كا استاد تھا كو تنقيد كا نشانہ بنايا۔ ديو بندي عقيدتي لحاظ سے اتنے سخت ہيں كہ علامہ اقبال پر فقط داڑھي نہ ركھنے كي وجہ سے تنقيد كرتے ہيں اور قائد اعظم كو شيعہ ہونے كي وجہ سے كافر كہتے ہيں۔ اس وقت پاكستان كے حكومتي اداروں اور پارليمنٹ ميں ديو بنديوں كا نفوز زيادہ ہے۔ جس كي وجہ سے ان كے ديني مدارس ، فلاحي تنظيميں اور تبليغي نظام مضبوط اور وسيع ہيں۔
ü اہل حديث (وہابيت):
اہل سنت كا دوسرا فرقہ اہل حديث ہے۔اس كي آبادي باقي فرقوں سے كم ہے مگر عقايد كے حوالے سے باقي فرقوں سے سخت تر ہے۔ يہ فرقہ اعتقادات و نظريات كے حوالے سے وہابيت سے ملتا جلتا ہے۔ يہاں تك كہ ان كو وہابي بھي كہا جاتا ہے۔ اس فرقے كے پيروكار اپنے ديني احكامات سعودي مفتيوں سے ليتے ہيں اور انہي كي تعليمات كي پيروي كرتے ہيں۔
ايك بہت دلچسپ نكتہ جو ان فرقوں كے ديني مدارس كي تعداد كے حوالے سے پايا جاتا ہے وہ يہ كہ ان كے ديني مدارس كي تعدادان كي آبادي كے برعكس ہے۔ اس وقت دنيا ميں ديوبندي مدارس ۶۵ فيصد ، جبكہ بريلوي مدارس ۲۵ فيصد، اہل حديث مدارس ۷ فيصداور تمام شيعي مدارس ۴ فيصد كام كر رہے ہيں۔
ü بريلوي:
اہل سنت كا تيسرا فرقہ بريلوي ہے جو كہ ۱۹ ويں صدي ميں ہندوستان ميں وجود ميں آيا۔ يہ فرقہ انگريز اور وہابيت كے خلاف ہے اور جب انگريز ہندوستان كي سرزمين پر آئے اور تسلط قائم كيا، پہلا گروہ جو يہ چاہتا تھا كہ مسلمان قيام كريں اور انگريز شكست كھائيں يہي مكتب بريلوي تھا۔ اس فرقے كا ايك رہبر جسكا نام احمد رضا خان بريلوي تھا۔ اسي كے نام پر اس فرقہ كا نام ركھا گيا۔ يہ فرقہ اعتقادي حوالے سے مكتب تسنن اور تصوف سے ملتا ہے۔ ليكن انكا زيادہ جھكاؤ تصوف كي طرف ہے۔ مكتب بريلوي حدسے زيادہ شيخ عبدالخالق كي رائے و نظريات كو ترجيح ديتے ہيں۔ اور خود احمد رضا خان بريلوي اپني كتابوں ميں شيخ عبدالحق سے متاثر ہے۔ يہ فرقہ نظريات و اصول كے حوالے سےابن تيميہ اور محمد ابن عبدالوہاب نيز شاہ اسماعيل دہلوي كا مخالف ہے اور ان كو غلط سمجھتا ہے۔
احمد رضا خان بريلوي ابن تيميہ كو (ضالّ و مضلّ) يعني گمراہ اور باعث گمراہي اور اسماعيل دہلوي كو (طاغيۃ النجديۃ) يعني سركش نجد اور اس كي كتاب كو كفريات سمجھتا ہے۔
فرقہ بريلوي اپنے آپ ہي كو حقيقي اہل سنت سمجھتا ہے بريلوي دوسرے فرقوں كي نسبت عقيدتي حوالے سے اتنا سخت نہيں ہيں۔ اس فرقے كے پيروكار مزارات پر بھي جاتے ہيں اور اہل تشيع كو كافر بھي نہيں كہتے۔ احكام ديني كے حوالے سے ان چار اماموں امام ابوحنيفہ ، امام حنبل ، امام شافع اور امام مالك ميں سے ايك امام كے پيروكار ہيں۔
بريلوي ديني مدارس پاكستان و ہندوستان ميں زيادہ ہيں۔ از جملہ دارالعلوم اشرفيہ مباركپور ہندوستان (تأسيس ۱۹۰۸ء) جامعہ حبيبيہ )تأسيس ۱۹۴۰ء) اور دارالعلوم غريب نواز (تأسيس ۱۹۶۵ء) يہ دونوں اللہ آباد ميں ہيں۔جامعہ نعيميہ مراد آباد ميں ہے اور جامعہ رضويہ منظرالاسلام كہ جو كہ بريلي ميں ہے ان دونوں كي بنياد احمد رضا خان بريلوي نے ركھي۔ ۱۹۷۲ ءميں پاكستان ميں بريلوي مدارس كي تعداد تقريباً ۱۲۴ تھي۔ ان كے مشہور تحقيقي مراكز اس وقت كراچي ، لاہور، مباركپور، مانچسٹراور استنبول ميں كام كررہے ہيں۔ ان آخري سالوں ميں بالخصوص ۱۹۸۰ كي دہائي كے بعد ۲۰ويں صدي ميں پاكستان و ہندوستان ميں زيادہ تر فكري و مذہبي واقعات ظاہر ہوئے ۔ انقلاب اسلامي ايران ايك طرف اور دوسري طرف افغانستان پر روسي حملہ بھي ان گروہوں اور فرقوں كي پيدائش كا سبب بنے۔ديو بندي اور اہل حديث كے ديني مدارس نے بريلويوں كو اس بات كي طرف متوجہ كيا كہ وہ بھي اپنے مذہب كي ترويج كيلئےديني مدارس اور يونيورسٹياں بنائيں