الوقت - حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے عراق كے نئے وزير اعظم حيدر العبادي نے پہلے مرحلےميں اس بات كي كوشش كي كہ مركزي حكومت كے دوسري سياسي جماعتوں كے ساتھ خراب تعلقات كو بہتر بنايا جائے۔ اور مركزي حكومت كي تشكيل علاقائي طاقتوں كي رضامندي سے كي جائے تاكہ اپني خارجہ پاليسي كے معاملات ميں ملكي اور بين الاقوامي طاقتوں كو اپني سياسي حكمت عملي كي طرف متوجہ كيا جاسكے۔ اس طرح كي حكمت عملي اور نظر اس نئي حكومت كو اس وجہ سے اپنانا پڑي تاكہ حكومت كو ملك كے اندر ہونے والي سكيورٹي كي تبديليوں اور داعش كے ساتھ نمٹنے كےلئے ملكي اور بين الاقوامي حمايت حاصل ہوسكے۔
اگرصيہوني طاغوتي سياست عراق ميں سياسي بحران كے گرد گھومتي ہے۔ ليكن امريكہ كي كوئي خاص دلچسپي نہيں ہے كہ وہ براہ راست عراق ميں داعش كے خلاف جنگ كا حصہ بنے۔ اصل ميں اس كا نقطہ نظر يہ ہےكہ عراق ميں ايك مخلوط حكومت قائم ہو جس ميں سني اور كردوں كو زيادہ سے زيادہ نمائندگي دي جائے تاكہ وہ ان كے ذريعے عراق كي سياست پر كنٹرول حاصل كر سكيں۔
تركي اب بھي عراق ميں ماضي كي طرح دو طرفہ نطر ركھتا ہے ۔ كيونكہ وہ ايك طرف تو ايران كے نوري المالكي كي حكومت كے روابط سے ناخوش تھا اور دوسري طرف داعش كے علاقائي اور بين الاقوامي قواعد كي عدم پاسداري اس كي پريشاني كا سبب تھا۔ يہ دو طرفہ نظر وجہ بني كہ نوري المالكي كي حكومت كے تبديل ہونے سے پہلےداعش كي بلواسطہ حمايت كرنے كي كوشش كي اور حتي وزير اعظم حيدر العبادي كے ساتھ علاقائي حكومت كي پائيداري كي بھي حمايت كرتے تھے۔ در يں اثنا ء سعودي عرب نے شروع ميں خليج فارس كونسل اور داعش كي حمايت سے نوري المالكي كي شيعہ حكومت كو گرانے كي كوشش كي ۔ حكومت عراق كي تبديلي كے ساتھ اور داعش كے بڑھتے ہوئے بحران كي وجہ سے سعودي عرب نے اپني سرحدوں كي سكيورٹي لے لئے اس بات كي كوشش كي كہ اپنے تعلقات اور روابط كو حيدر العبادي حكومت كےساتھ بہتر بنايا جائے۔ اور مستقبل قريب ميں سعودي عرب كا بغداد ميں دبارہ سے سفارتخانہ كھولنے كا قوي امكان ہے۔ سعودي عرب كا داعش كو ايك ہتھيار كے طور پر استعمال كرتے ہوئے اس بات كي طرف اصرار ہے كہ اس نئي حكو مت ميں اہل سنت كے مطالبات كو شامل كيا جائے۔
ليكن دوسري طرف روس كا يہ نقطہ نظر ہے كہ عراق مين ہونے والي تبديلياں خاص طور پر دہشت گرد گروہ داعش كے اقدامات اور نتائج پورے خليجي خطہ پر پڑ رہے ہيں ۔ اگرچہ روس كي خارجہ پاليسي ميں عراق كے مسائل كوئي خاص اہميت نہيں ركھتے ليكن عراقي بحران كي وجہ سے تمام خليجي ممالك مشرق وسطي پر اثرات پڑ رہے ہيں۔ جس كي وجہ سے يہ روس كي توجہ كا مركز قرار ديا گيا ہے۔ اور اس ضمن ميں كہ اس ملك كا عراق كي صورتحال ميں پريشان ہونا امريكہ كے نفع ميں ہے۔
عراق كے مقبوضہ علاقے آزاد كرانے كي حكمت عملي
آخري چند ماہ ميں مختلف قبضہ ميں ليے گئے علاقے داعش سے برسر پيكار لشكركے ليےتبديلي كي اميد اور خوشي كي نويد ہيں، ان واقعات كي تحليل اور تجزيہ علاقائي تناظر اور ميداني حقايق كو مدنظر ركھ كر بيان كيے جائيں گے۔ پچھلے چند ماہ سے عراقي فوج اور عوامي مليشيا كي مدد سے اچانك موصل كو قبضہ ميں ليے جانے كے بعد ديگر قبضے ميں ليے گئے علاقوں كي آزادي كا سلسلہ جاري ہے۔ اور يہ سلسلہ اس وقت سے جاري ہے جس وقت سے عراقي فوج اور عوامي مليشيا مراجع كے فتوي كے بعد ميدان ميں اترے۔ پہلے مرحلے ميں انہوں نے داعش كي پيش قدمي كو روكا اور داعش كو تين سني نشين اكثريتي علاقوں نينوا، صلاح الدين اور الانباركے صوبوں تك محدود ركھا، اس كے بعد ان تين صوبوں اور ديگر علاقوں ميں سے قبضہ ميں ليے گئے علاقوں كو واپس چھڑانے كے ليے آپريشن كا آغاز كيا ، خبروں كے مطابق كہ جو بعض اوقات لائيو نشر كي جاتي ہيں اُن سے اس آپريشن كي كاميابي كا اندازہ اس بات سے لگايا جا سكتا ہے كہ آج داعش اور ديگر دہشت گرد تنطيموں كے كمانڈرز نے اپنے گھر والوں اور ديگر خاندان كے افراد كو عراق سے ديگر ممالك ميں منتقل كر ديا ہے اور اُنكا يہ فعل اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ وہ بھي اس حقيقت كوتسليم كر چكے ہيں كہ اب عراق ميں داعش كے ليے حالات بالكل بدل چكے ہيں اور يقينا آئندہ آنے والا وقت بہت بري شرائط كے ساتھ ان لوگوں كے انتظار ميں ہے۔
مگر داعش كے قبضہ ميں ليے گئے علاقوں كو آزاد كرانے كے ليے حكمت عملي اپنانے كي ضرورت ہے، يہ نكتہ بہت اہم ہے كہ آج عراق ميں يہ دور انديش اور حكيمانہ فكر پائي جاتي ہے كہ قبضے ميں ليے گئے علاقے ، اُن علاقوں كے اپنے قبائل اور لوگوں كي مدد سے آزاد كرائے جائيں، اس مقصد كے ليے عراقي فوج اُن علاقوں ميں موجود قبائل اور لوگوں كي حمايت اور انہيں مسلح كررہي ہے اس مقصد كے ليے فوج مختلف مراحل ميں مختلف طريقوں سے ان لوگوں كي پشت پناہي كر رہي ہے۔
اس حكمت علمي كو چند اہم دلايل اور عوامل كے پيش نظر اپنايا گيا ہے، اول يہ كہ داعش نے شروع ميں كچھ سني قبائل كي حمايت كے سبب ان علاقوں كو اپنے قبضہ ميں ليا، كيوں كہ ان قبائل نے وفاقي حكومت سے اختلافات كے پيش نظر داعش كو نجات دہندہ كے طور پر سمجھا، ليكن جب داعش نے اُن مناطق پر قبضہ كيا تو اس وقت ان لوگوں كو اپني غلطي كا احساس ہوا، اور اب يہ لوگ اپني غلطي كا ازالہ كرنا چاہتے ہيں، لہذا اپني سرزمين كي آزادي كے ليے ضروري ہے كہ فوري طور پر اقدام كيا جائے۔
اس كي دوسري دليل يہ ہے كہ تمام قبضہ ميں ليے گئے علاقہ سني اكثريت ہيں اور اگر فوج اكيلے ان علاقوں كي آزادي كے ليے كوئي قدم اٹھاتي تو داعش چونكہ ان شہروں ميں موجود ہے تو وہ اپني حفاظت كے ليے ان لوگوں كو اپني ڈھال كے طور پر استعمال كرتے اور اس طرح بہت سے انساني جانوں كا زياں ہوتا كہ يہ فعل ہو سكتا تھا كہ عراقي لوگوں كے دل ميں طويل مدت كے ليے حاكموں كے ليے نفرت ايجاد كر سكتا تھا۔
اس كي ايك اور دليل يہ ہے كہ جو دوسري دليل كے ضمن ميں آتي ہے كہ جب لوگوں كے توسط سے ان علاقوں ميں امن قائم ہو گا تو يقينا يہ امن دير پا اور محكم ثابت ہو گا، كيوں كہ يہ علاقے لوگوں كي حوصلہ افزائي اور عزم ايك پر امن اور مستحكم معاشرے كےضامن ہيں۔
اور موجودہ صورتحال ميں قبضہ ميں ليے گئےعلاقوں كي آزاد سازي كا يہ عمل اسي طرز پر جاري ہے اور عراقي حكومت اور فوج ان قبائل اور لوگوں كو مسلح اور پشت پناہي كر رہي ہےاور يہ لوگ مختلف علاقوں ميں سنجيدگي كے ساتھ اپنے علاقوں كو داعش اور اس كے نحس وجود سے پاك كرنے ميں مصروف ہے
وقت كے گزرنے كے ساتھ اور جس طرح عراقي حكام نے بھي وعدہ ديا ہے كہ قبضہ ميں ليے گئے علاقوں كي آزادي كا سلسلہ جاري رہے گا تا كہ داعش عراقي جغرافيہ، دفاعي اور سياسي منظر نامہ سے حذف ہو سكے۔۔۔
1. مشرق وسطي كے بارے ميں تركي كي پاليسي وزير اعظم داود اوغلو كے دور ميں:
عثماني سلطنت كے زوال كے بعد كے سالوں ميں تركي كي خارجہ پاليسي كا سابقہ اس ملك كے حكمرانوں كي كوششوں كو ظاہر كرتا ہے كہ جو مغرب خصوصا ًUSAكي بے چون و چرا اطاعت كے لئے تھيں۔يہ طريقہ كار سال ۲۰۰۲ ءتركي ميں عدالت و ترقي پارٹي كے حكومت ميں آنے تك جاري رہا۔ اس كے بعد اس ملك كے داخلہ اور خارجہ پاليسي كے نئے اہداف بيان ہوئے۔ اس طريقے سے كہ تركي نے اپني سياست كو تبديل كيا اور علاقے ميں طاقت محوري كو اپنا اصلي ہدف قرار ديا اور اعلان كرديا كہ اپني پچھلي عثماني تاريخي سلطنت پر انحصار كرتے ہوئے اپنے آس پاس كے علاقے خصوصا مشرق وسطي ميں اپنا مقام بڑھائيں گے۔
حال حاضر ميں جب براہ راست عوامي ووٹوں سے منتخب ہونے والے تركي كے صدر اردغان كو ديكھا جائے تو يہ معلوم ہوتا ہے كہ تركي كي سياسي تبديليوں كي تاريخ ميں ايك نئے باب كا آغاز ہوا ہو۔ كيونكہ تركي كے سياسي سيٹ اب ميں ادرغان اور عدالت و ترقي پارٹي پہلے سے زيادہ مستحكم ہوئيں ہيں۔ اس سے يہ پتہ چلتا ہے كہ وہ زيادہ طاقت كے ذريعے تركي كي داخلہ اور خارجہ پاليسي كے شعبوں ميں اپني مطلوبہ سياسي پاليسي كا اجراء كريں گے۔ اس لحاظ سے تركي كي خارجہ پاليسي اور خاص طور پر اس ملك كے صدارتي انتخابات كے بعد مشرق وسطي ميں تركي كي خارجہ پاليسي كا جائزہ اہميت كا حامل ہے۔
مشرق وسطي ميں تركي كي پاليسي؛ كشيدگي محور تحريك
مشرق وسطي كے ممالك كے درميان تركي كا اپنے تين ہمسايہ ممالك شام ، عراق اور ايران كے ساتھ تعلقات ايك خاص اہميت كے حامل ہيں۔ خاص طور پر حاليہ برسوں ميں شام اور عراق كے ساتھ اپنے مستحكم انتظامي تعلقات كو كھوديا اور ان كے ساتھ دوستي اور قربت، دشمني اور كشيدگي كي طرف جارہي ہے۔
1. شام كا بحران اور تركي: شام كے بحران كے آغاز كے ساتھ ترك حكومت كي پوزيشن ايك طرح كے سوالات اور ابہامات سے دوچار ہوئي۔كيونكہ يہ پوزيشن اس طريقہ كار كے خلاف تھي جو اس بحران كے آغاز سے كم از كم ۱۰ سال پہلے تركي اور شام كے تعلقات ميں شروع ہوئي تھي۔ حقيقت يہ ہے كہ تركي شروع سے ہي شام كے معاملے ميں مغرب اور خاص طور پر USA كے كردار كو پہچاننے ميں غلطي كا شكار ہوگيا۔ كيونكہ ترك حكومت كا يہ خيال تھا كہ اگر شام ميں مخالفت فوجي اقدامات اٹھانے كي حد تك پہنچ جائے ، اس وقت مغرب شام ميں ليبيا كے منظرنامے كو دہرائے گا اور اس ملك ميں فوجي مداخلت پر نظرثاني كرے گا۔ اور اس طرح وقت كے گزرنے كے ساتھ ساتھ اور خاص طور پر شام كے معاملے ميں امريكہ اور نيٹو كي پوزيشن نے يہ واضح كرديا كہ ترك حكومت حالات سے صحيح نتيجہ نہيں نكال سكي ہے۔ شام ميں تركي جنگجوؤں كو ٹارگٹ بنانا اور اس موضوع كے بارے ميں امريكہ اور نيٹو كا رد عمل نہ دكھانا شام كے حالات ميں ڈائركٹ فوجي مداخلت سے كوئي عدم دلچسپي كو ظاہر كررہا تھا۔ يہ بات يہاں تك پہنچي كہ اردغان نے عليٰ اعلان امريكي حكومت كو تنقيد كا نشانہ بنايا اور يہ مطالبہ كيا كہ وائٹ ہاوس شام كے حالات كے بارے ميں اپنا واضح اور قطعي موقف دے اور بشار اسد كے مخالفين كي حمايت كرے۔
2. عراق كے حالات اور تركي: امريكہ كا عراق پہ فوجي حملہ تركي كا عراق ميں ايك نئي سياست كے وجود ميں آنے كا سبب بنا اور انقرہ نے اس ملك ميں نفوز كرنے كے لئے بہت زيادہ كوشش كي۔ اس سلسلے ميں ترك حكومت نے ايك ہي وقت ميں دو پاليسياں اپنائيں: پہلي يہ كہ اردغان كي حكومت يہ سوچ رہي تھي كہ دولت كے ذريعے عراق ميں نفوز كيا جاسكتا ہے، اس ملك ميں وسيع پيمانے ميں سرمايہ كاري كي اور سال ۲۰۱۰ ميں دوطرفہ تجارت كو ۶ بلين ڈالر تك پہنچايا۔ دوسرا يہ كہ انقرہ نے شيعہ تحريكوں كے مقابلے ميں سني جماعتوں كي حمايت كي۔ اور اس سلسلے ميں تركي نے پہلے مرحلے ميں عراقي وزير اعظم سے يہ مطالبہ كيا كہ وہ سني جماعتيں اور پارٹياں جو تركي سے قريبي تعلقات ركھتي ہيں ان كے بارے ميں اپني پاليسياں تبديل كرے۔ اس كے بعد انقرہ نے عراقي حكومت كے اقدامات پر واضح طور پر تنقيد كيا اور عليٰ الاعلان اس كي مخالفت كي۔
اس صورت ميں تركي اپني مندرجہ بالا پاليسيوں ميں نام ہوچكا تھا اور ايك تاريخي اقدام ميں اپني پاليسيوں كو تبديل كيا اور شمالي عراق كے كردوں كے ساتھ اپنے تعلقات كو معمول ميں لانے كي كوشش كي۔اگرچہ شروع ميں تركي نے طاقت اور پوائنٹس حاصل كرنے كےلئے اور عراقي كردوں كا تركي كے كرد نشين علاقوں ميں نفوز كے ڈر سے ان كي مخالفت كي تھي اور يہاں تك كہ ۲۰۰۷ ء ميں عراقي كردوں كا كركوك كو حاصل كرنے كي كوشش كے در عمل ميں فوجي حملےكي دھكي دي تھي،ليكن اچانك ۲۰۰۸ ء سے عراقي كردوں كي كوششوں كے بارے ميں تركي كا ردعمل تبديل ہوگيا۔ تركي اس حقيقت كو جاننے كے بعد كہ عراق ميں آبادي كے لحاظ سے طاقت ہميشہ شيعوں كے پاس رہي ہے اور وہ قدرتي طور پر ايران سے قريب ہونگے، كردوں كے ساتھ دوبارہ تعلقات قائم كئے اور اپنے جنوبي ہمسايہ سني عربوں كي بھي حمايت شروع كي۔
اس دوران مندرجہ بالا پاليسيوں كے ناكام ہونے اور ۲۰۱۴ء كے پارليماني انتخابات كا ہونا سبب بنا كہ تركي عراق كي تبديليوں ميں سني جماعتوں كو ناكام ديكھے اور اپنے نقطہ نظر كو تبديل كركے بلواسطہ داعش كي حمايت كرے۔ اس بنياد پر ابھي بھي عراق كي مركزي حكومت كے ساتھ تركي كے تعلقات شام كے بحران اور انقرہ كے كردي علاقوں كے ساتھ توافق كي وجہ سے كشيدہ ہوچكے ہيں۔
3. تركي اور ايران: ايران اور تركي علاقے كي قدرت كے حوالے سے ايك دوسرے كے ہمسايہ ملك ہيں اور دنيا كے حساس ترين علاقے ؛ مشرق وسطي، مركزي ايشياء اور قفقاز ميں واقع ہيں۔ يہ دونوں ممالك كے اپنے سسٹم اور مفادات ہيں اوران كے كچھ مفادات مشترك اور كچھ متضاد بھي ہيں۔ اور اسي طرح بہت سارے عوامل ان دونوں ممالك كے تعلقات ميں تأثير گزار ہيں جوكہ دوطرفہ تعلقات كے اتار چڑھاؤ كا سبب بنتے ہيں۔
گزشتہ برسوں ميں ايران اور تركي كے درميان سياسي اور سكيورٹي كي سطح ميں ترقي ہوئي ہے۔ اس موضوع كو ان دونوں ممالك كے ليڈرز اور سربراہان كي ملاقاتوں ميں ديكھا جا سكتا ہے اور بعض مقامات ميں ان دونوں ممالك كا ايك دوسرے كے ساتھ تعاون اور شئير ميں بھي۔ اس دوران شام كے بحران اور ترك حكومت كے رويے نے اسلامي جمہوريہ ايران كو جو كہ ايك طرف سے شام كے اتحاديوں ميں شمار ہوتا ہے اور دوسري طرف سے گزشتہ دہائي ميں ترك حكومت كے ساتھ اپنے اقتصادي اور سياسي تعلقات كو بڑھايا تھا ، ايك حساس موڑ پر لاكھڑا كرديا ہے۔ شام كے معاملے ميں ايران اور تركي كي نگاہ ميں تضاد اور فرق ايك ايسا مسئلہ ہے كہ جو بذات خود تہران اور انقرہ كے تعلقات كوكشيدہ كرديتاہے، ليكن ايران اپني مطلوبہ پاليسيوں كے حصول كےلئے اور اسي طرح تركي كا تہران كے ساتھ تعلقات كي كشيدگي ميں عدم دلچسپي باعث بني ہے كہ دوطرفہ تعلقات اسي طرح مطلوبہ سطح پر باقي رہيں۔
حاليہ دور ميں ايسا لگتا ہے كہ يہ دونوں ممالك مختلف شعبوں اقتصادي، سياسي اور سكيورٹي ميں وسيع پيمانے پر تعاون كےلئے اور اسي طرح علاقے اور دنيا كے بحرانوں كے بارے ميں تعاون كرنے ميں دلچسپي ليتے ہيں۔اس سلسلے ميں تجارت ، خدمات اور توانائي كے شعبوں ميں اقتصادي تعاون ميں وسعت دونوں ممالك كے دوستانہ تعلقات ميں اضافہ كرسكتے ہيں۔ پرامن ايٹمي ٹيكنالوجي تك رسائي كےلئے دونوں ممالك كي مشتركہ پاليسي ، علاقے ميں اور بين الاقوامي سطح پر ان كي پوزيشن مضبوط كرسكتي ہے۔ اس دوران مشرق وسطي خاص طور پر شام اور عراق كے معاملے ميں تركي كي خارجہ پاليسي كي سيٹ اب وائس گردش اور دمشق اور بغداد كے ساتھ انقرہ كے تعلقات كو بہتر بنانے ميں اسلامي جمہوري ايران جو كردار ادا كرسكتا ہے وہ كافي اہميت كا حامل ہے اور ايك دفعہ پھر ايران اور تركي كے علاقے كي پاليسيوں كو ايك دوسرے كےقريب كرسكتا ہے۔