حال ہی میں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اعلان کیا تھا کہ تہران مسئلہ کشمیر میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ایران کی اس تجویز کا پاکستانی حکام نے استقبال کیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہم ایران کے اس قدم کا استقبال کرتے ہیں۔ اسی موضوع پر الوقت نے بین الاقوامی امور کی تجزیہ نگار خدیجہ حجت سے گفتگو کی پیش خدمت ہیں اہم اقتباسات :
ایران نے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی جو تجویز پیش کی ہے اس کا پس منظر کیا ہے؟ در حقیقت بحران کشمیر میں ایران کی ثالثی کے کیا اسباب ہیں۔
موضوع کشمیر، ان بہت سے موضوعات اور سیاستوں میں ایک ہے جس کو اہم اختیار کرتے ہیں۔ ان سے بعض قابل پیشن گوئی ہیں جبکہ بعض کی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی جو علاقے کے پیچیدہ حالات کی جانب پلٹتے ہیں۔ در حقیقیت ڈاکٹر محمد ظریف نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں جو ثالثی کی پیشکش کی ہے اس کے چند اسباب ہیں اور یہ پاکستان یا ہندوستان سے ہمارے تعلقات سے براہ راست متعلق نہیں ہے۔
یعنی مسئلہ کشمیر میں ایران کی ثالثی، ہمارے پاکستان کے ساتھ تعلقات سے بھی آگے کا مسئلہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے چنداسباب ہیں : پہلا سبب یہ ہے کہ علاقے کی مکمل صورتحال بحرانی اور پیچیدہ ہے۔ دوسرا سبب عالم اسلام کی موجودہ صورتحال ہے، تیسرا سبب امریکا کے حالیہ انتخابات ہیں جس کے بارے میں علاقے اور دنیا کے زیادہ تر ممالک کو ابھی معلوم نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ عالمی مسائل کے حوالے سے کیا فیصلہ لیتی ہے۔ جب بھی کوئی ملک کوئی فیصلہ کرتا ہے اور عالمی سطح پر کوئی اقدام انجام دیتا ہے اس کے کچھ اسباب ہوتے ہیں۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت قریبی ہیں، ایران نے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی تجویز پیش کی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر، پاکستان کے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ اس لحاظ سے ایران یہ مسئلہ اٹھا کر پاکستان سے مزید قریب ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم پاکستان سے دو طرفہ تعاون کے خواہاں ہیں۔
ہندوستان کے حوالے سے ایران کی ثالثی کی پیشکش کے کیا اثرا مرتب ہوں گے، کیا ایران کی ثالثی ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے؟
ہم ہندوستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ہندوستان ایک ایسا ملک تھا جہاں کبھی کشیدگی نہیں رہی، لیکن ہندوستان کی کچھ خصوصیات ہیں، ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں علاقے میں ایک ایسے ملک سے تعلقات کی ضرورت ہو جو آزاد ہے اور ہندوستان میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔ عالمی سطح پر ہندوستان تقریبا تمام بین الاقوامی طاقتوں سے کام کرتا ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک امتیازی مسئلہ ہے۔ افغانستان کے مسئلے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ افغانستان کو اہمیت دیں گے، افغانستان ان کے لئے بہت مہم ہے۔ یعنی جو بھی ملک افغانستان میں کردار ادا کرنا چاہئے اس کو پہلے پاکستان کو راضی کرنا ہوگا۔ سیکورٹی لحاظ سے افغانستان اور پاکستان، ایران کے لئے بہت اہم ہے۔ پاکستان سے تعلقات یہ صرف ایران کی سیکورٹی نہیں ہے بلکہ یہ سیکورٹی پورے علاقے سے متعلق ہے۔
کیا علاقے کی موجودہ صورتحال میں ایران، مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی توانائی رکھتا ہے؟
موجود وقت میں جو حالات ہیں اس کے مد نظر یہ ممکن ہے۔ اس کی اہم دلیل یہ ہے کہ یہ کردار ادا کرنےکے لئے ایران کے پاس بہترین جغرافیائی پوزیشن ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایران نے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیشکش کر دی۔
ایران کی ثالثی کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
زیادہ ممکن ہے کہ جس طرح سے پاکستان نے ایران کی تجویز کا خیر مقدم ہے کیا ہندوستان بھی استقبال کرے لیکن یہ توقع کرنا کہ ایران کی ثالثی سے مسئلہ کشمیر حل ہوجائے قبل از وقت فیصلہ ہے کیونکہ مسئلہ کشمیربہت قدیمی مسئلہ ہے جس نے دونوں ممالک کی سیکورٹی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔