الوقت - حلب کے مشرقی شہر کی مکمل آزادی کی الٹی گنتی شروع ہونے کے پیش نظر فوج نے ان علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لئے اپنی کارروائی تیز کر دی ہے۔
شام کی فوج نے کچھ دن پہلے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حلب کے شمال مشرقی علاقے کو مکمل طور پر آزاد کرا لیا تھا اور فوج مشرقی حلب کے جنوبی حصے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
فوج کی مسلسل پیشرفت سے بوکھلائے دہشت گردوں کے علاقائی و بین الاقوامی آقا دہشت گردوں کو بچانے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ فوج کی پیشرفت کو روکا جا سکے۔
ان حربوں میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :
عالمی سطح پر سفارتی کوششیں :
یہ بات کسی سے پوشید نہیں ہے کہ سعودی عرب، ترکی، قطر، امریکا اور کچھ مغربی ممالک بحران شام کے آغاز سے ہی شام میں سرگرم دہشت گروں کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد کرتے آ رہے ہیں۔ ان ممالک کا اصل ہدف شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانا اور اس کی جگہ اپنی مد نظر حکومت کو اقتدار میں پہنچانا ہے لیکن شام کی فوج اور اس کے اتحادیوں کی مزاحمت کی وجہ سے دہشت گرد اور ان کے آقا اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اپنے مہروں کے شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کے محاصرے میں آنے کے بعد دہشت گردوں کے حامیوں نے اپنے مہروں کو بچانے کے لئے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی کی کوشش :
عالمی سطح پر اپنے مہروں کو بچانے میں ناکامی کے بعد دہشت گردوں کے حامی سیکورٹی کونسل کا سہارا لے کر شام میں جنگ بندی کے نفاذ کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تاريخ گواہ ہے کہ جب بھی شام کی فوج مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے دہشت گردوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیتی ہے تو ان کے آقا جنگ بندی کے بہانے ان کو بچا لیتی ہے۔ شام کی تاریخ میں جتنی بھی جنگ بندی ہوئ جب پر نظر ڈالنے سے یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
ترک صدر کا بیان :
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے حالیہ دو دن پہلے بشار اسد کے خلاف جو بیان دیا اس نے روس اور ایران دونوں کو ناراض کر دیا۔ رجب طیب اردوغان نے کہا کہ شمالی شام میں ہماری مداخلت، بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی کے مقصد سے تھی۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ترکی کی فوج نے شامی صدر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے شام میں در اندازی کی ہے۔
اردوغان نے منگل کو کہا کہ ہم شام میں داخل ہوئے تاکہ اسد کو اقتدار سے ہٹائیں جو ان کے بقول ریاستی دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ اردوغان نے کہا کہ ہم کسی دوسرے مقصد سے شام میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ اردوغان نے کہا کہ ترکی شام کے کسی علاقے پر دعوی نہیں کرتا بلکہ وہ شام میں عدل و انصاف قائم کرنا چاہتا ہے۔ اردوغان نے یہ بھی کہا کہ ان کے اندازے کے مطابق بحران شام میں اب تک تقریبا دس لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں تاہم اقوام متحدہ کے مطابق شام کے بحران میں ہلاکتوں کی تعداد تقریبا 4 لاکھ ہے۔
اردوغان نے اقوام متحدہ کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کہاں ہے؟ وہ کیا کر رہی ہے؟ کیا وہ عراق میں ہے؟ ہم نے بہت صبر کیا لیکن آخرکار ہمارے صبرکا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ہم فری سیرین آرمی کی مدد سے شام میں داخل ہوئے۔
شام میں ترکی کی مداخلت سے شامی حکومت بہت زیادہ ناراض ہے اور عرب لیگ نے بھی اس معاملے میں ترکی کی تنقید کی ہے۔ حال ہی میں ترک فوجیوں پر بمباری میں تین ترک فوجی ہلاک ہو گئے تھے جن کے بارے میں انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شامی طیاروں کی بمباری کا نشانہ بنے ہیں لیکن شامی حکومت نے اس بمباری کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ترکی کی حکومت شام اور عراق دونوں ممالک میں مداخلت کر رہی ہے جس کی وجہ سے حالات بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ترکی نے دہشت گرد تنظیموں کی بھی بھرپور مدد کی ہے جو شام اور عراق میں سرگرم ہیں۔ رجب طیب اردوغان کے اس بیان کو حلب میں شام کی فوج کی پیشرفت سے جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔
یوسف القرضاوی کا بیان :
قطر کے مفتی یوسف القرضاوی نے بھی نے حلب میں شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کی پیشرفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حلب میں ہو رہے قتل عام پر دنیا کو اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔ یوسف القرضاوی کے بیان کو اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کے مذہبی رہنما بھی حلب میں دہشت گردوں کے بچانے کے لئے آواز بلند کرنے لگے ہیں۔