الوقت - لبنان کے البناء اخبار میں سر قندیل نے اپنے مقالے میں ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایران نے گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات سے استفادہ کرتے ہوئے لوزان اجلاس میں اپنی شرکت کے لئے کچھ شرطیں رکھی ہیں۔ ایران نے یہ شرط پیش کی کہ شام کے بارے میں لوزان اجلاس میں مصر اور عراق کو دعوت دی جائے کیونکہ ایک طرف عراق، عرب ملک شام کا اہم ہمسایہ ملک ہے اور دونوں ہی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شریک بھی ہیں اور دوسری جانب مصر بڑا عرب ملک سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ایران اور مغرب کے درمیان تاریخی مذاکرات اور ان مذاکرات کے نتائج کے بارے میں لکھا کہ یہ خاکہ تیار ہوا اور مذاکرات کی مدت میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی جو دو بار ناکام ہوئے۔ ایران نے ایٹمی پروگرام کو توسیع دی اور اپنے سیٹریفوج کی مشینوں کو مکمل کر لیا، پھر مذاکرات کی مدت میں سات مہینے کی توسیع ہوگئی اور آخرکار مذاکرات اپنے نتائج پر پہنچے اور دونوں فریق نے معاہدے پر دستخط کر دیئے۔
انہوں نے لکھا کہ ابھی ایران اور گروپ پانچ جمع کا معاہدہ ہوا ہی تھا کہ شام کا بحران اسی مرحلے میں پہنچ گیا جس مرحلے میں ایران کا ایٹمی مسئلہ تھا۔ انہوں نے شہر حلب میں شام کی فوج اوراس کے اتحادیوں کے کامیاب آپریشن اور دہشت گردوں کے ارد گرد دائرہ تنگ ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بات پر توجہ دینا چاہئے کہ سعودی عرب، ترکی اور قطر کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کی گردن کے نزدیک شامی فوج کا چاقو پہنچ چکا ہے۔ شہر حلب شام کا اسٹراٹیجک اور ملک کا قلب سمجھا جاتا ہے۔ اس صورتحال نے ملک کے جنوبی علاقوں میں موجود مسلح گروہوں کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ شام کی فوج جب حلب سے دہشت گردوں کا خاتمہ کر سکتی ہے تو ان کی کیا بساط ہے۔
انہیں سب حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایران کی سفارتکاری نے لوزان اجلاس میں شرکت کے لئے علاقے کے دو اہم ملکوں کو دعوت دیئے جانے کی شرط رکھ دی۔ ایران نے اپنے حساب سے سعودی عرب کے مقابلے میں اور ترکی اور قطر کے غیر جانبدار کرنے اور ان کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کی تشویق دلانے کا منصوبہ تیار کیا تاکہ امریکا کے مقابلے میں روس رہے اور دونوںن مذاکرات کے متنظمین کی حیثیت سے مفاہمت کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔
سعودی عرب، قطر اور ترکی کو خلیج فارس تعاون کونسل کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی اور ان ممالک نے شام کی صورتحال کے بارے میں اپنا شدید اور ایران سے اپنا مخاصمانہ موقف اختیار کیا تو ایرانی حکام نے امریکا، ترکی ، سعودی عرب اور قطر کے سامنے لوزان اجلاس کے بائیکاٹ کا ارادہ پیش کردیا کیونکہ ایران کو پتا تھا کہ اس اجلاس میں اس کی غیر حاضری سے اجلاس کی اہمیت ہی ختم ہو جائے گی۔ اسی لئے دوسرے ممالک نے ایران اور سعودی عرب کو ایک میز پر لانے اور شام کے مسائل سمیت تمام مسائل کے حل کے لئے تہران اور ریاض کو شرکت کے لئے تیار کیا۔
مصر اس لئے اہم ملک ہے کیونکہ مصر میں ہی شام کی حکومت کے مخالفین کا پہلا اجلاس ہوا تھا، اس حوالے سے عراق اور مصر کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ دونوں ہی سعودی عرب اور ترکی کی ٹیم میں نہیں ہیں جبکہ قطر کو خلیج فارس کے عرب ممالک کی زینت بڑھانے کے لئے علی الاعلان القاعدہ گروہ کے ساتھ ثالثی کا کردار ادا کرنے کی دعوت دی گئی تھی اور مصر کو دعوت دیئے جانے سے سعودی عرب اور ترکی بری طرح ناراض ہوئے۔ مصر کے ترکی کے ساتھ تعلقات استوار نہیں ہے وہ ترکی کو اپنی قومی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ بہرحال قاہرہ شام کے بارے میں آزادانہ پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔