الوقت - امام خمینی رحمۃ اللہ کی کارناموں پر گفتگو کرنے کے لئے بہت زیادہ وقت درکار ہے۔ ان کی حکمت عملی اور سیاسی سوجھ بوجھ کو درک کرنے کئے ایک طولانی عمر کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان کی حکمت عملی ، بصیرت اور دور اندیشی کو سمجھ سکیں۔ ان کے عظیم کارناموں کو یوں ہی بیان نہیں کیا جا سکتا ہم یہاں پر صرف امام خمینی کی نظر میں یوم القدس کی اہمیت کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
امام خمینی نے جب رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دے کر ایک تاریخ رقم کر دی۔ اس کے ذریعے انہوں نے پوری دنیا کو بتایا کہ دنیا کی مظلوم ترین قوم سے اس دن اظہار یکجہتی کی جائے۔ امام خمینی بیت المقدس کو اتنی اہمیت دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تمام مسلمانوں کی ترجیحات میں یوم القدس کو ہونا چاہئے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے اس کارنامے کو کیسا قرار دیا جائے۔ امام خمینی نے یوم القدس کے لئے ایک خاص دن کیسے معین کیا۔ اس کے کیا اہداف تھے، اس مقالے میں مختصر جایزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
تاریخی کارنامہ
امام خمینی سو سال کے بعد فلسطین کے مسئلے پر دنیا کی خاموشی توڑنے میں کامیاب رہے۔ امام خمینی نے اس ہدف سے طولانی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ امام خمینی نے بحران کا مرکز بیت المقدس کو قرار دیا اور ان کو یقین تھا کہ نسلوں کے گزرنے کے بعد بھی یہ مسئلہ زندہ رہے گا اور امام خمینی کی دور اندیش نظریں یہ دیکھ رہی تھیں کہ آنے والے وقت میں بیت المقدس اور فلسطینیوں سے خیانت کرنے والے اس اہم مسئلے کو خاموشی کے حوالے کر دیں گے۔ امام خمینی نے انقلاب کے آغاز سے ہی کھل کر مسئلہ فلسطین کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ امام خمینی کے اس اعلان کا مقصد صیہونی عزائم کو ناکام کرنا اور اس کے منصوبوں پر پانی پھیرنا تھا۔ امام خمینی کی نظر میں اس طرح سے ہم فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی میںن شریک ہو سکتے ہیں اور علاقے میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین اس کے مالک کو پہنچائی جانی چاہئے۔ اسی طرح صیہونیوں نے تاریخی حقیقت کو بدلنے کی کوشش کی اور بیت المقدس پر اپنے حق پر مصر ہیں۔
یوم القدس کے تعین کا ہدف؟
بہت سے افراد یہ پوچھتے ہیں کہ جمعۃ الوداع کو ہی کیوں عالمی یوم القدس منانے کا اعلان کیا گیا؟ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کو حکومت اور حکمراں طبقوں سے ہٹ کر عوام مسئلہ قرار دیا۔ اسی لئے امام خمینی نے اس مسئلے کو ترجیحات میں قرار دیا۔ انہوں نے مسئلے فلسطین کی جانب تمام قوموں اور حکومتوں کی توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کی۔ انہوں نے تمام افراد سے مسلکی، مذہبی، دینی اور فرقہ وارنہ چولا اتار کر مسئلہ فلسطین کو اہمیت دینے کی اپیل کی۔ روزے کے ایام میں یوم القدس قرار دینے کا مقصد تھا تمام افراد کی توجہ اس مسئلے کی جانب کرنا تاکہ یہ مسئلہ عالم اسلام کا اہم مسئلہ قرار پائے۔
امام خمینی کی جانب سے مسئلہ فلسطین کی حمایت
تمام دباؤں اور فشار کے باوجود امام خمینی نے مسئلہ فلسطین پر تاکید کی اورایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی، مسئلہ فلسطین کے لئے نوید ثابت ہوئی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے تمام توجہ فلسطین کے مسئلہ پر دے کر اسرائیل کے حالات سخت کرد يئے۔
شروع میں امام خمینی نے نظر میں مسئلہ بیت المقدس
امام خمینی نے عوام کے دل و دماغ میں یہ حقیقت ڈال دی تھی کہ فلسطینی عوام کی بھر حمایت کی جانی چاہئے۔ یہ پہلا اور آخری آپشن تھا۔ وہ فلسطین کے مسئلہ کا حل چاہتے تھے۔ امام خمینی کی اپیل کا یہ اثر ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی جوان، بچے اور خواتین نمازوں کے بعد ہاتھوں میں پتھر لے اسرائیلی فوجیوں سے مقابلہ کرتے اور ان پر پتھر برساتے، ادھر جواب میں ان پر فائرنگ ہوتی اور کئی شہید اور زخمی ہوتے تاہم امام خمینی کا آواز پر لبیک کہتے ہوئے آج بھی فلسطینی اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے مزاحمت کر رہے ہیں اور یہی وہ مقصد تھا جس کے لئے امام خمینی نے اپیل کی تھی کہ صرف مزاحمت کے ذریعے ہی فلسطین کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔