الوقت - ۲۰۰۲ میں گجرات کے احمدآباد کی گلبرگ سوسائٹی میں قتل عام پر خصوصی عدالت کا فیصلے نے جہاں ذکیہ جعفری اور دوسرے افراد کو حیرت زدہ کردیا وہیں ذہن میں چودہ سال بعد آئےاس فیصلے پر کئی سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اس فیصلے سے تو یہی لگتا ہے کہ ۲۸ فروری ۲۰۰۲ کو مارے گئے۶۹ لوگوں نے خود ہی اپنی موت کو بلا یا تھا۔
خصوصی جج پی دیسائی اس نتیجہ پر پہنچے کہ مقتول احسان جعفری سابق ممبر پارلیمینٹ اور ذکیہ جعفری کے شوہر کی طرف سے گولی چلانے کی وجہ سے اکثریتی طبقہ میں بھگدڑ مچ گئی ورنہ مجمع کا بیشتر حصہ پتھراؤ اور گلبرگ سوسائٹی کے باہر کھڑی اقلیتی طبقہ کی گاڑیوں اور اثاثوں کو جلانے میں مشغول تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جس فساد میں صبح کے ۸ بجے سے شام چار سے ساڑھے چار بجے تک خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہو جس میں کانگریس کے سابق ممبر پارلیمینٹ احسان جعفری اور ۳۴ افراد زندہ جلائے گئے ہوں اور ۳۵ لوگوں کو مرا ہوا مان لیا گیا ہو اور شام ساڑھے چار بجے تک پولیس پہنچی تو سب کچھ ختم ہو گیا ہو ۔ اس میں انتظامیہ کی ذمہ داری طے کیوں نہیں کی جاسکی؟
یہ فساد گجرات کے دار الحکومت میں ہو رہے تھے جہاں پولیس کا پہنچنا مشکل نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ پھر بھی اس کی سازش کی بات عدالت پہلے ہی خارج کرچکی تھی کیونکہ تحقیقات اس جانب بڑھ نہیں پائی حالانکہ اس کی تحقیقات کرنے والی پارلیمینٹ کی منتخب تحقیقاتی کمیٹی (ایس، آئی، ٹی) کے اہم رکن راگھو نے عدالت کی سازش والے پہلو کو انکار کرنے پر ناخوشی ظاہر کی تھی ویسے یہ کمیٹی پہلے ہی ریاست گجرات کے موجودہ وزیر اعلی نریندر مودی کو فساد کی ذمہ داری سے بری کرچکی ہے۔
در اصل اس سے سب سے بڑا سوال ہماری عدالتی تحقیقاتی کمیٹی اور اور کرائم برانچ پر اٹھتا ہے حال ہی میں وزیر داخلہ سے عشرت جہاں کیس کے متعلق گمشدہ فائل کی تحقیقات کو لے کر ایک اخبار کی رپورٹ سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے ہماری تحقیقاتی کمیٹی بھی سیاست کا شکار ہے؟ اس کا انکشاف ۲۰۱۴ میں آئی منوج مٹھا کی کتاب دی فیکشن آف فیکٹ فائڈنگ ’’مودی اینڈ گودھرا‘‘ نے بہت ہی اچھے انداز میں کیا ہے۔
حال ہی میں آئی رعنا ایوب کی کتاب گجرات فائل: انا ٹومی آف اے کور اپ ۔ تو اور بھی خطرناک انکشاف کرتی ہے جس سے دل دہل اٹھتا ہے۔ اس میں گجرات کےموجودہ پولیس انتظامیہ اور سخت دل سیاسی رہنماوں سے بات کی گئی ہے ۔ ہاں یہ درست ہے کہ یہ بات چیت پوشیدہ طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔ رعنا کا الزام ہے کہ تہلکا میگزین نے اسے سیاسی دباؤ میں شائع نہیں کیا لیکن اس کے سابق ایڈیٹر کچھ اور ہی وجہ بتاتے ہیں۔
۲۰۰۲ فسادات کے بعد جھڑپوں میں ہوئی موتوں کا ذکر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ موجودہ پولیس انتظامیہ نے اسے کیسے انجام دیا؟ ۲۰۰۳ سے ۲۰۰۶ کے درمیان گجرات میں کئی اھم جھڑپیں ہوئیں اس میں عشرت جہاں، سہراب الدین شیخ، کوثر بی اور تلسی رام پرجا پتی کے معاملے بہت مشہور ہوئے جب ان جھڑپوں پر سوال اٹھنے لگے تو کئی موجودہ پولیس افسران اور ریاست کے وزیر داخلہ امت شاہ سے پوچھ تاچھ ہوئی گرفتاری ہوئی اور معاملہ ابھی تک الجھا ہوا ہے۔
گجرات فائل سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں اور انتظامیہ کا رویہ غیر ذمہ دارانہ اور جانب دارانہ ہو جائے تو اس کا انجام کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایوب نے جن لیڈروں سے بات کی وہ ھمتی اور ذمہ دار نہیں لگتے ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ ناجائز اور غیر قانونی بھی ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں ان کے پاس کوئی لکھا ہوا حکم نامہ بھی موجود نہیں تھا وہ حکم کی تعمیل اس لئے کر رہے تھے کہ ان کا مستقبل خطرہ میں پڑ سکتا تھا۔
ظاہر ہے ایوب نے ان افسروں اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقات اپنی اصلیت چھپاکر کی تھی انھوں نے امریکن فلمکار میتھلی تیاگی کا نام بتا کر اور خود کو آر ایس ایس کا سچا حمایتی بتایا تھا۔ اسطرح انہیں گجرات کے فسادوں اور اسکے بعد اہم عہدوں پر رہے پولیس افسروں جی ایل سینہل، راجن پری درشی، پی سی پانڈے، جی سی ریگر سے بات کرنے کا موقع ملا انہوں نے اشوک نرائن کے علاوہ سابق رہنما مایا کوڈنانی اور یہاں تک کہ مودی سے بھی ملنے میں کامیابی حاصل کی۔
اس کتاب میں سب سے پریشان کرنے والی بات یہ لگتی ہے کہ پولس افسران جان بوجھ کر معاملات اور جھڑپوں کو انجام دے رہے تھے اور اسے اپنی ڈیوٹی کا حصہ مانتے تھے اور کسی کے اندر اس کی ذرہ برابر بھی پشیمانی نہیں تھی۔ خیر اس سے ہمارے انصاف اور تحقیقاتی کمیٹی پر جو سوال اٹھتے ہیں قابل توجہ ہیں۔
مثلا اگر ۱۴ سال بعد انصاف آتا ہے اور وہ مقتولین کے لواحقین کو درست نہیں لگتا ہے تو حتما اس میں اصلاح اور ترمیم کی ضرورت ہے۔ اصلاح کا یہ تقاضا ان معاملوں میں اور بھی سنگین اور افسوس ناک ہو جاتا ہے جھاں ۱۴/۱۵ سال بعد دہشت گردی کرنے والے ملزمین کو بری کردیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ مکہ مسجد، بیسٹ بیکری فسادوں کے علاوہ کئی ریاستوں میں دہشت گردی کو انجام دینے کے سلسلے میں لوگوں کے ساتھ ہوا زیادہ تر ان معاملوں میں پولیس مجرمین کا جرم ثابت نہیں کرپائی۔ لیکن انہوں نے جو اپنے قیمتی سال گنوائے انہیں کون واپس کریگا فسادوں اور دہشت گردانہ وارداتوں کے معاملے میں پولیس تحقیقات پر کئی معاملے الجھے ہوئے ہیں سرکار کے پاس عدالتی اور جانچ کمیٹی کی اصلاح نے کی گزارشیں دھول چاٹ رہی ہیں کیا اب یہ موقع نہیں ہےکہ ان پر شدت سے غور و فکر کیا جائے۔