الوقت - حالیہ کچھ دنوں سے نام نہاد مشرق وسطی امن منصوب پر فلسطینیوں اور صیہونی حکومت کی توجہ مرکوز ہے۔ فلسطین میں مزاحمت کے ماضی سے پتا چلتا ہے کہ جب بھی صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کے مقابلے میں فلسطینی عوام کی مزاحمت موثر مرحلے میں داخل ہونے والی ہوتی ہے عالمی برادری امن کا شوشہ چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اوسلو مذاکرات کے بعد پہلا انتفاضہ اپنے اوج پر پہنچ گیا تھا جبکہ شرم اشیخ معاہدے اور مغربی کنارے پر فلسطینی انتظامیہ کی مضبوطی کے بعد دوسرا انتفاضہ شروع ہوا۔
مذکورہ امن منصوبے کا ماحصل یہ تھا کہ انتفاضہ کی ریل اپنی پٹری سے اتر گئی اور اس کا اختتام بہت ہی نامطلوب رہا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امن کا یہ منصوبہ بھی فلسطینیوں کی صیہونی حکومت کے خلاف نئی کاروائیوں کو کمزور کرنے کے ہدف سے پیش کیا گیا۔ یہ کاروائی گزشتہ سال شروع ہوئی اور آج تک پوری آب و تاب سے ایک تحریک کی شکل میں جاری ہے۔
اس بنا پر گزشتہ مہینے جب فرانس کے وزیر خارجہ نے اس منصوبے کی جزئیات میڈیا کے سامنے رکھی، نتن یاہو نے فرانسیسی منصوبے کو جس میں ہارہا صیہونی حکومت کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، بے نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ ہم فلسطینی انتظامیہ کے ساتھ بغیر کسی قید و شرط کے ساتھ فوری مذاکرات شروع کئے جانے کو تیار ہیں اور ہمارا موقف یہ ہے کہ ہمارے اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع ختم کرنے کا بہترین راستہ براہ راست اور دو طرفہ مذاکرات کا آغاز ہے۔ براہ راست مذاکرات کے علاووہ تمام سیاسی اقدامات سبب بنا کہ فلسطینی مذاکرت کی میز سے دور ہو گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت نے اس ملک کی تجویز کو جو اس کا قریبی اور دوست ملک تصور کیا جاتا ہے اور جس نے اس کے مفاد کو مد نظر رکھ کر تجویز پیش کی، قبول کرنے سے کیوں انکار کر دیا۔
فلسطین میں دو سرکاروں والے مشہور منصوبے کو پیش ہوئے کچھ عرصہ گزر رہا ہے۔ اس منصوبے کے صیہونی حکومت میں بھی مخالفین اور حامی ہیں۔ حامیوں کی دلیل ہے کہ صیہونی معاشرے میں پورے فلسطین میں حکومت کے قیام کی توانائی نہیں پائی جاتی اور وہ اپنے پڑوس میں عربوں کو قبول کرنے کو مجبور ہے۔ اس طبقے کا یہ خیال ہے کہ اگر فلسطینی مزاحمتی گروہ ختم ہو جائیں یا وہ تحلیل ہو جائیں تو فلسطینی انتظامیہ کے ساتھ جس نے فلسطینی مزاحمت کاروں کی سرکوبی میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کی، مفاہمت ہو سکتی ہے اور ان کو حکومت کی تشکیل کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
اسرائیل کے اندر دو حکومتوں کی تشکیل کے منصوبے کے مخالفین افراد کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے سامنے جو سیکورٹی مسائل ہیں اس سے مد نظر کسی بھی طرح سے مذاکرات قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ طبقہ سیکورٹی کو مقدس اور پاک چيز سمجھتا ہے اور اس بارے میں تلمود کی تعلیمات کی پیروی کرتا ہے اور صیہونی حکومت کا نیا وزیر جنگ لیبرمین اسی گروہ کا پیروکار ہے۔ تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ لیبرمین کی تقرری جو محمود عباس کے ساتھ مذاکرات ار بین الاقوامی امن منصوبے کے مخالفین میں ہے، کا معنی، گفتگو اور دو حکومتوں کے حامی ممالک کے خلاف نتن یاہو کا عمل اقدام ہے۔ لیبر مین اس حوالے سے کہتے ہیں جو یہ تصور کرتا ہے کہ 1967 کی سرحد کی جانب واپسی اور فلسطینوں کو مشرقی بیت المقدس کے دارالحکومت والی حکومت کی تشکیل کی اجازت، تنازع کو حل کرنے کا راستہ ہے، وہ خام خیالی میں ہے۔ اگر آپ کے پاس ایک ایسا ملک ہو جس میں دو قوم ہو تو چاقوزنی کا واقعہ روزانہ کے معمول میں تبدیل ہو جائے گا۔
بہرحال، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض عرب میڈیا فرانس کے منصوبے کو صیہونی حکومت کی رسوائی کی منزلت میں دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یورپی ممالک خاص کر فرانس نے فلسطین اسرائیل تنازع کو ختم کرنے کے لئے ایک وسیع اور منصفانہ تجویز پیش کی ہے جو مستقبل میں مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن پورے یورپ میں صیہونی لابی کے اثرات کے مدنظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے مفاد میں ہے اور فلسطین کی مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت کی جانب سے امن مذاکرات کی مخالفت، توسیع پسندی اور غاصبانہ قبضے میں توسیع کے لئے ہے۔ صیہونی حکومت کے سیکورٹی اہلکار جانتے ہیں کہ یہ مخالفت اتنی شدید نہ ہو کہ واپسی کا راستہ بند ہو جائے اور اسی لئے موساد کے سابق سربراہ تامیر پاردو نے خبردار کیا ہے کہ صیہونی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے خاص کر انہوں نے دو حکومتوں کی تشکیل سے متعلق موقع کے ہاتھ سے نکل جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ اگر چہ صیہونی حکومت فلسطینی انتظامیہ کے ساتھ دو حکومت کے منصوبے پر کسی مفاہمت تک پہنچ جاتی ہے تو فلسطینی مزاحمت پر شدید خطرے لاحق ہو جائیں گے۔