امریکی صدر باراک اوباما گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے دورے پر گئے ، اوباما کا صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ چوتھا اور غالبا آخری دورہ تھا، صدر اوباما کا یہ دورہ گزشتہ تین دوروں سے کچھ الگ تھا وہ اس لئے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد یہ پہلا دورہ تھا جب اوباما سعودی عرب پہچے، یاد رہے کچھ عرصے سے امریکا اور سعودی عرب کے درمیان یمن، شام اور دہشت گرد تنظیم داعش کو لے کر نظریاتی اختلاف چل رہا ہے۔
ایک طرف جہاں یہ دورہ چل رہا تھا وہیں دوسری طرف امریکا میں کانگریس اور امریکی حکام کے درمیان اس بات کو لے کر بحث و گفتگو چل رہی ہے کہ ۱۱ ستمبر کے حادثہ میں سعودی عرب کا ملوث ہونا ثابت ہے اسی لئے سعودی عرب کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کی جائے البتہ امریکی صدر باراک اوباما نے وٹو کی دھمکی بھی دی ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اس دورے کے دوران دو طرح کی بات کہی ہے، ایک طرف تو اس بات کا اظہار کیا کہ وہ علاقے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان ہے اور یہ الزامات عائد کیا کہ ایران دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے اور یہ یقین دہانی کرائی کہ ہم ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے میں خیلج فارس کے ممالک کے ساتھ ہیں تاہم دوسری طرف سعودی فرمانروا ملک سلمان سے خفیہ ملاقات کے دوران انہیں یہ نصیحت کی کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو ٹھیک کریں اور ان کے ساتھ رہنا سیکھیں۔
امریکا کے معروف تجزیہ نگار اور سفارتکار ہنری کیسینجر اپنا اظہار خیال کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ایران معیشت اور فوجی لحاظ سے ایک طاقتور ملک ہے جس کا دوسرے ملکوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وہ امریکی حکام کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ عرب اتحایوں کی حمایت کہ ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ بھی اچھے رابطے قائم کرنے پر غور و فکر کریں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باراک اوباما کے دماغ میں بھی یہ بات تھی اسی لئے انہونے اپنے ریاض کے دورے میں اس کا اظہار کیا۔ البتہ اس طرح کا بیان وہ بھی خود سعودی عرب میں اس بات کی دلیل ہے کہ امریکا کے سامنے اب سعودی عرب کی نالائقی ثابت ہوچکی ہے۔
امریکی میگزین 'فارن پالیسی' کی رپورٹ کے مطابق امریکا اور سعودی عرب کے حالات خراب ہونے کے تین اہم سبب ہوسکتے ہیں۔
پہلا سبب : باراک اوباما اس بات سے پسپائی اختیار کرتے نظر آئے اور کہتے ہیں بشار اسد کی حکومت کا تختہ پلٹنا اور دمشق پر ہوائی حملے اسلئے تھا کہ بشار اسد کی حکومت نے ۲۰۱۳ میں مخالفین کے اوپر غیر قانونی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہوگا لیکن یہ ثابت نہں ہو سکا اسی لئے باراک اوباما نے لیبیا والی پالیسی یہاں نافذ نہیں کیا۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اور نتیجے میں ایران پر عائد پابندیاں ہٹانا اور بین الاقوامی طاقتوں کے رابطے میں آنا ہے۔
تیسرا سبب یہ ہے کہ امریکی میگزین اٹلانٹک میں پچھلے مہینے باراک اوباما نے اپنے انٹرویو میں سعودی عرب کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کے بعض اتحادی جوکہ یورپ اور خلیج فارس سے تعلق رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ امریکا کو اپنی قومی تنازع میں شامل کریں جبکہ امریکا کے لئے یہ بلکل بھی فائدہ مند نہں ہے۔
باراک اوباما نے اپنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ سعودی عرب اپنے وھابی اور شدت پسند افکار کو پھیلا رہا ہے اور ۱۱ ستمبر کے حملے میں ملوث دہشت گردوں کی اکثریت سعودی عرب کے شہری ہیں۔ یعنی ۱۹ افراد میں سے ۱۵ افراد سعودی عرب کے تھے اور پھر کہتے ہیں سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ مل جل کر رہے۔
ان سب کے باوجود سعودی عرب بھی چپ نہیں ہے ، سعودی عرب نے اوباما اور امریکی کانگرس کے ارکان کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے کوئی ایسا قانون یا بِل منظور کیا جس کے تحت کوئی امریکی عدالت سعودی عرب کو 11 ستمبر کے حملے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے تو سعودی عرب امریکہ میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کردے گا۔
ان دنوں سعودی عرب کے حالات بھی کافی خراب چل رہے ہیں، ایک طرف اقتصادی تو دوسری طرف دفاعی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور خود سعودی عرب کے داخلی حالات بھی ٹھیک نہں ہیں کیوکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمت نے داخلی بازار کو کافی خراب کر رکھا ہے جس کی وجہ سے عوام کو بھی کافی پریشانی ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت نے سعودی عرب کو پریشان کر رکھا ہے اور اسی درمیان امریکا کی سعودی عرب سے بڑھتے فاصلے نے سعودی کو سبق سکھا دیا کہ اس کی کیا حیثیت ہے اور وہ دوسری بڑی طاقتوں کا کتنا محتاج ہے۔
سعودی عرب اس بات کو لے کر بھی کافی ناراض ہے کہ امریکا کا ایران سے جوہری معاہدہ کامیاب رہا جس کے نتیجے میں ایران سے بین الاقوامی پابندیاں ہٹا لی گئی ہیں۔
سعودی عرب یہ چاہ رہا تھا کہ دمشق کی ناامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بشار اسد کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جائے لیکن اس کی یہ امید پر بھی اس وقت پانی پھر گیا جب امریکا نے شام پر حملہ کرنے کا ارادہ بدل دیا وہ بھی صرف اس گمان میں حملہ کرنے والا تھا کہ بشار اسد حکومت نے مخالفین پر کیمیائی ہتھیار کا استعمال کیا ہوگا۔
سعودی عرب کو امید تھی کہ جس طرح سے عراق کی طاقت کم ہوئی ہے اور مصر کی معیشت خراب ہونے کی وجہ سے مشرقی وسطی میں ان کی اہمیت کم ہوگئی ہے اور شام میں خانہ جنگی کو لے کر فوج بھی تھک چکی ہے اور اس ملک کے ۲۵ فیصد افراد بےگھر ہوچکے ہیں، ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مشرقی وسطی کی سربراہی سعودی عرب کے پاس رہے گی، اسی لئے سعودی عرب ایران کی ہر طرح کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی جس کو لے کر سعودی عرب نے اپنی سربراہی میں ایک عربی اتحادی طاقت بنانے کا قدم اٹھایا اور یہ اعلان کیا کہ جس نے بھی ریاض کی مخالفت کی اور ایران کا ساتھ دیا اس کا بھی وہی حال ہوگا جو یمن، شام، اور لبنان کا ہوا ہے۔