الوقت - اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کا تیرہواں سربراہی اجلاس جمعرات کو ترکی کے شہر استنبول میں شروع ہو گیا۔
اسلامی تعاون تنظیم کے اس اجلاس کا سلوگن ہے امن اور انصاف کے لئے اتحاد و یکجہتی۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سمیت اسلامی ممالک کے سامنے موجود اہم مسائل، استنبول اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اس اجلاس میں شرکت کے لئے بدھ کی رات استنبول پہنچے ۔ ایران کے صدر نے انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو موجود وقت میں عالم اسلام کا اہم مسئلہ قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے سربراہی اجلاس میں روانہ ہونے سے پہلے صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا کہ ایران کو امید ہے کہ یہ اجلاس اختلافات کو دور کرنے اور بالخصوص دہشت گردی سے مقابلے میں عالم اسلام میں مضبوطی اور استحکام سبب بنے گا۔
یہ اجلاس ایسی حالت میں شروع ہوا ہے کہ عراق، شام اور یمن سمیت بہت سے اسلامی ملک بدامنی اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ بھی او آئی سی کے استنبول اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے سربراہ ان اسلامی معاشروں کے مسائل کا بھی جائزہ لیں گے جو او آئی سی کے رکن نہیں ہیں۔ سربراہی کانفرنس سے پہلے استنبول میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی نشست ہوئی جس میں ايران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اجلاس میں سعودی وفد کی کوششوں کو اتحاد و یکجہتی کے متضاد قرار دیتے ہوئے اس قسم کی تخریبی کارروائیوں کے نتائج کی جانب سے خبردار کیا تھا۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد پر زور دیا اور کہا تھا کہ ملکوں کے درمیان مشکلات و اختلافات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہئے۔ انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ دوطرفہ مسائل کو کثیر الجہتی ملاقاتوں میں نہیں اٹھانا چاہیے۔ وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف سعودی عرب کی سرگرمیوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے او آئی سی کے سربراہی اجلاس کے مسودے میں ایران اور حزب اللہ کے خلاف جو باتیں شامل کی ہیں، وہ اتحاد اسلامی کے خلاف اور صیہونی حکومت کے مفاد میں ہیں۔ واضح رہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے اور اس تنظیم کا سربراہی اجلاس ہر تیسرے سال ہوتا ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے علاقے میں اختلافات پیدا کرنے کی پالیسی جاری ہے وہ پورے علاقے کے لئے نقصان دہ ہے جبکہ استنبول کا سربراہی اجلاس ایک موقع ہے تاکہ تمام اسلامی ممالک عالم اسلام کے مسائل سے مقابلے کے لئے حقیقی تجاویز اور راستے پیش کریں۔
فلسطین، یمن، لیبیا اور افریقہ میں مسلمانوں کی بدتر صورتحال اور علاقے میں اسرائیل اور داعش کا خطرہ وہ چیلنجز ہیں جن کو موجودہ وقت میں حقیقی نظر سے دیکھے جانے اور اس کے بارے میں صحیح فیصلہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کو یہ ظاہر کر نا چاہئے کہ عالم اسلام کے مسائل کے حل میں اس کا مؤثر کردار ہے اور یہ کردار او آئی سی کے سربراہی اجلاس میں واضح ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اسلامی ممالک کونقصان پہنچانا اور کمزور کرنا صرف اسلام کے دشمنوں اور اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ بالخصوص اس وجہ سے کہ عالم اسلام کو جن مشکلات و مسائل کا سامنا ہے ان کی جڑ عالم اسلام کے اندر نہیں ہے بلکہ ان کی جڑ غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت میں ہے تلاش کرنا چاہئے۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے اور وہ آج عالم اسلام سمیت انسانیت کے لئے شدید خطرے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ دہشت گردی سے مقابلے کے سلسلے میں مغرب کے دوہرے رویے نے عالم اسلام کو دہشت گردوں کی سرگرمی کے کے مرکز میں تبدیل کر دیا ہے اور ان دہشت گردوں کی عرب اور مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی جانب سے حمایت کی جاتی رہی ہے۔ شام اور عراق میں مغرب اور علاقے کے بعض ممالک کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت ان ممالک اور عالم اسلام کے لئے درد سر بن گیا ہے۔ شام اور عراق سے باہر داعش کی سرگرمیاں اس بات کی علامت ہیں کہ داعش کی سرگرمیاں صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں ہیں اور ان کے مقابلے میں غفلت سے یہ دوسرے ممالک میں سرایت کر گئی ہیں۔
اس وقت عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لئے ہر وقت سے زیادہ وسیع اور جامع تعاون کی ضرورت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کا مقصد عالم اسلام کے مسائل کے حل کے علاوہ کچھ اور نہیں ہونا چاہیے۔ 57 اسلامی ملک او آئی سی کے رکن ہیں اور وہ غیر ملکی مداخلت کے بغیر ایک دوسرے سے تعاون کرکے اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح او آئی سی کے رکن ملک ایک دوسرے سے تعاون کرکے دشمنوں کی مداخلت کا سد باب بن سکتے ہیں۔ بہر حال استنبول کے سربراہی اجلاس سے توقع اس بات کی ہے کہ اس سے ان مشکلات و مسائل سے مقابلے میں اتحاد و یکجہتی کا پیغام جائے گا جن کا عالم اسلام کو سامنا ہے۔