الوقت - امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کابل کے اپنے دورے کے دوران افغان حکام سے تبادلہ خیال کی اطلاع دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کی امید پائی جاتی ہے اور اگر طالبان تشدد کا راستہ چھوڑ دیں تو امریکا، پاکستان، چین اور افغانستان پر مبنی چار فریقی مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکا، افغانستان میں دہشت گردی سے مقابلے اور اس ملک کے فوجیوں کو مسلح کرنے نیز فوجی ساز و سامان ان کے حوالے کرنے کے اپنے وعدے کا پابند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی، اچھے حکومتی نظام، انتخابات میں اصلاحات اور پیشرفت کے مسائل پر افغان حکام کے ساتھ گفتگو ہوئی۔
جان کیری نے اپنے غیر اعلانیہ دورہ افغانستان کے دوران تاکید کی کہ امریکا، افغان حکومت کی حمایت جاری رکھے گا اور وہ داعش سے مقابلے کے لئے بنے اتحاد میں کابل کے شامل کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ کابل کا یہ قدم علاقے کے دوسرے ممالک کے لئے آئیڈیل بن جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کی ارضی سالمیت، خودمختاری اور جمہوریت کا دفاع کرتے ہیں اور یہ موضوع کابل- واشنگٹن سیکورٹی سمجھوتے کا سبب بنا ہے ۔ افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت تقریبا 20 مہینے پہلے تشکیل پائی تھی۔ افغان صدارتی انتخابات میں آگے چل رہے دونوں امیدواروں محمد اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ کے درمیان حکومت کی تشکل پر ایک معاہدہ ہو گیا تھا۔ عبد اللہ عبد اللہ نے انتخابات میں دھاندھلی کے الزامات عائد کیا تھا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ افغانستان کے سیاسی حالات مزید خراب ہو جائیں گے لیکن امریکا کی ثالثی کے بعد افغانستان میں قومی اتحاد کی حکومت تشکیل پائی۔ دونوں فریق کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کی بنیاد پر دو سال تک حکومتی ڈھانچہ انتخابات کی بنا پر ہوگا اور ملک میں جاری انتخاباتی نظام کی اصلاح ہوگی۔
جان کیری نے واضح طور افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت کی عمر پانچ سال بتایا جو دو سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ یہاں پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جان کیری کا افغانستان کا دورہ ، اس ملک کے وزیر خارجہ سے دو طرفہ ملاقات کے لئے انجام پایا ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے کابل- واشنگٹن سیکورٹی معاہدے کا جائزہ لیا۔ سیکورٹی معاہدہ امریکی چھاونیوں میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے لئے بہت ضروری ہے جبکہ طالبان کے مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے ترغیب دینا، انتخابات میں اصلاحات وغیر امریکی حکام کے لئے زیادہ اہم موضوع نہیں ہیں۔
گر چہ افغان صدر نے امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور امریکا کو افغان حکومت اور ملت کا مرکزی اتحادی قرار دیا اور اس کی وجہ دونوں ملکوں کے مشترکہ مفاد اور مشترکہ خطرے خاص کر دہشت گردی بیان کیا۔ انھوں نے اس ملاقات میں کابل-واشنگٹن سیکورٹی سمجھوتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا کے ساتھ باہمی احترام اور قانون کے مطابق تعلقات قائم رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کابل کے ساتھ سیکورٹی معاہدہ، ہر چيز سے زیادہ امریکا کے لئے اہم ترین تھا۔
یہ بات واضح ہے کہ امریکا نہ صرف افغانستان میں سیکورٹی اور امن کے قیام کے لئے حاضر ہوا ہے اور نہ ہی اسے افغان فوجیوں تربیت و ٹریننگ سے کوئی واسطہ ہو گا۔ امریکا افغانستان میں فوجیوں کی تربیت کے بہانے موجود رہنا چاہتا ہے اور علاقے میں امریکا کے کئی ہدف ہیں جن کو حاصل کرنے کے لئے وہ روزانہ ایک الگ بہانہ بناتا ہے۔ افغانستان میں امریکیوں کی موجودگی کا سب سے خطرناک نتیجہ، اس ملک میں داعش کی موجودگی اور اس کی سرگرمیوں میں اضافہ ہے۔ افغان فوجیوں کو مضبوط کرنے کے راستوں میں سب سے اہم اس ملک کی فضائیہ کو مضبوط کرنا ہے جو دہشت گردی سے مقابلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن امریکی اس موضوع پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے اور اس کے ساتھ ہی غزنی اور ننگرہار صوبوں میں نامعلوم ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جنگجوؤں کی منتقلی کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔